Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رانا پلازہ کے ہیرو کے’ پیچھے چلتی لاشیں‘

بنگلادیش کے رانا پلازہ میں چھ سال قبل لگی آگ کے دوران درجنوں افراد کو بچانے والے ہیرو نے حادثے کے بعد ہونے والے صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ 27 سالہ نوشاد حسن ہیمو نے بدھ کو اپنی جان لے لی۔ 24اپریل بدھ کے روز کپڑے کی فیکٹری کے حادثے کو چھ سال ہوگئے تھے، جس میں 1,138 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رانا پلازہ کے واقعہ کو دنیا کا بد ترین انڈسٹریل حادثہ کہا جاتا ہے۔
پولیس افسر اصغر علی نے اے ایف پی کو بتایا، " انہوں نے اپنے اوپر مٹی کا تیل ڈال کر خود کو آگ لگا لی۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے دم توڑ دیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو شبہ ہے نوشاد ڈپریشن کا شکار تھے، ان کے دوستوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ حادثے کی وجہ سے صدمے کا شکار تھے۔
اصغر علی کا کہنا تھا کہ ’وہ اکیلے اپنے گھر میں دو کتوں کے ساتھ رہتے تھے اورلوگوں سے ملنے سے کتراتے تھے۔
گارمنٹ یونین کی سربراہ اور ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر تسلیمہ اختر نے اے ایف پی کو بتایا،’ہیمو نے لگاتار 17 روز تک کام کیا اوردرجنوں افراد کو بچانے اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں نکالنے میں مدد کی۔‘
ان کا کہنا تھا ہیمو نے ہسپتالوں میں زخمیوں کی بھی مدد کی اور اگر حادثے کے ہفتوں بعد بھی کسی کا انتقال ہو جاتا تو وہ ان کی میت کو بنگلادیش کے دور دراز علاقوں میں ان کے گھر تک پہنچاتے۔
وہ گہرے صدمے اور ڈیپریشن کا شکار تھے۔ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ ’مجھ کو لاشوں کی بدبو آتی ہے اور اپنے پیچھے  لاشیں چلتی دکھائی دیتی ہیں۔‘
مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے رانا پلازہ کے حادثے کے بعد کام کرنے والے کئی رضا کاروں کو درپیش صدمے کو رپورٹ کیا ہے، لیکن اپنی جان لینے والے ہیمو پہلے رضا کار ہیں۔
رانا پلازہ ایک نو منزلہ فیکٹری کمپلکس ہے جہاں 24 اپریل 2013میں لگنے والی آگ نے عمارت میں 4,000 کارکنوں کو پھنسا دیا تھا۔
برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے ایکشن ایڈ کے سروے کے مطابق رانا پلازہ حادثے سے بچنے والے تقریباً 10فیصد افراد حادثے کے چھ سال بعد بھی صدمے کا شکار ہیں۔
سروے کی قیادت کرنے والے شوہومے حق کے مطابق ’ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ رضاکار اب تک ذہنی مسائل سے گزر ہے ہیں۔‘

شیئر: