Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'سائبر کرائم قانون کا انسانی حقوق کے خلاف استعمال'

بلاول نے شاہ زیب جیلانی سے ایف آئی اے کی جانب سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک پرمعذرت بھی کی۔
پاکستان کے سرکاری ادارے  'قومی کمیشن برائے انسانی حقوق' نے تسلیم کیا ہے کہ سائبر کرائم قانون کو ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران صحافی شاہ زیب جیلانی کو ایف آئی اے کی جانب سے حراساں کیے جانے کے معاملے پر بحث کے دوران کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری سیمت تمام ارکان نے تسلیم کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی ارکان نے قانون میں ترمیم کی تجویز دے دیں۔
'قومی کمیشن برائے انسانی حقوق' کے ممبر چوہدری شفیق نے بتایا کہ  قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کی زندگیوں کو پاکستان میں پہلے ہی خطرات لاحق ہیں۔


شاہ زیب جیلانی نے اجلاس کو بتایا کہ ان کی ٹویٹس کے بعد ان کے خلاف  الیکٹرانک کرائمز ایکٹ دوہزار سولہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کو بتایا گیا کہ سال دو ہزار سترہ سے اب تک دودرجن سے زائد افراد کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر انکوائریوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں صحافی، سیاسی کارکنان اور سماجی ورکرز شامل تھے۔
غیر سرکاری تنظیم 'بولو بھی' کی بانی فریحہ عزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ ناصرف 'پریونشن آف لیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016' کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ بعض اوقات قانون سے ہٹ کر بھی شہریوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے گرفتاریوں اور کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ہرسال دو بارحکومت کو اس کے استعمال کے حوالے سے رپورٹ پارلیمنٹ میں لانا ہوتی ہے مگر گزشتہ تین سال میں صرف ایک رپورٹ سامنے آسکی ہے۔
اس موقع پر شیریں مزاری نے بھی اتفاق کیا کہ بعض اوقات اداروں کے اقدامات سائبر قانون کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں اور قانون کی پاسداری نہیں کی جاتی۔
اس موقع پر متعدد ارکان اسمبلی نے قانون میں ترمیم کی تجویز دی جس سے کمیٹی چئیرمین بلاول بھٹو نے بھی اتفاق کیا۔
صحافی شاہ زیب جیلانی نے اجلاس کو بتایا کہ ان کی ٹویٹس کے بعد ان کے خلاف  الیکٹرانک کرائمز ایکٹ دوہزار سولہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس سے حال ہی میں کراچی کی ایک عدالت نے ختم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں غدار قرار دے کر نوکری سے نکلوانے کی دھمکی دی گئی، ان کا کہنا تھا کہ دسمبر 2017 میں لاپتہ افراد اور مارچ 2019 میں سابق وزیراعظم جونیجو پر ڈاکومینٹریز بنائیں جس کی وجہ سے مقدمات درج کیے گئے اور کہا گیا کہ یہ ریاستی اداروں کے خلاف ہیں ۔


کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے پچیس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

بلاول بھٹو زرداری نے شاہ زیب جیلانی سے ان کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سےرکھے جانے والے ناروا سلوک پرمعذرت بھی کی اور کمیٹی کے اگلے اجلاس میں وضاحت کے لیے ایف آئی اے کو طلب کر لیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے پچیس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس پر کمیٹی کی رکن اور وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کا بل تیار ہے اور جلد پیش کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بل میں صحافیوں کی گمشدگی کی روک تھام اور ان کی تربیت کے لیے شقیں شامل ہیں ۔
اجلاس  میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب لاپتہ افراد کے موضوع پر بات کے دوران کراچی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے سیف الرحمن نے بلاول بھٹو کو کہا کہ سیکنڑوں افراد کے قاتل راو انوار کے معاملے کا بھی نوٹس لیں۔ بلاول نے فورا جواب دیا کہ رو انوار کا سائیبر کرائم سے کیا تعلق ہے۔ جس پر سیف الرحمن نے ٓاصف زرداری کے ایک ماضی کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے بہادر بچہ کہا گیا تھا۔ بلاول نے جواب دیا کہ اس بیان کی وضاحت آ چکی ہے مگر دوسری طرف سے وضاحت کب ٓائے گی؟  بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ لاپتہ افردا کا مسئلہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور انسانی حقوق کے معاملے پر ملک میں بحرانی کیفیت ہے۔

شیئر: