Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جناب صدر کیا واقعی میرے خلاف ریفرنس دائر ہوا ہے؟‘

اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ریفرنس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل زاہد ایف ابراہیم بدھ کو مستعفی ہوگئے تھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے صدر مملکت عارف علوی کو خط لکھ کر اپنے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں کی تصدیق یا تردید کرنے کا کہا ہے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار اے وحید مراد کے مطابق خط میں مستقبل کے چیف جسٹس نے صدر مملکت کو لکھا ہے کہ حکومتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
 اپنے خط میں جسٹس عیسٰی نے استفسار کیا ہے کہ ’براہ کرم مجھے بتایا جائے کہ یہ درست ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہے تو انہیں ریفرنس کی کاپی مہیا کی جائے۔‘


اردو نیوز کے پاس موجود جسٹس فائز عیسیٰ کے خط کا عکس۔ 

انہوں نے لکھا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ آپ اس بات پر مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر میرے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا ہے اور مجھ سے جواب مانگا گیا ہے تو اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت سے ہی حکومت ریفرنس کی تفصیلات اور میرا جواب ظاہر کرسکتی ہے۔‘
جسٹس عیسٰی کا کہنا ہے کہ مبینہ ریفرنس کے حوالے سے اس طرح لیک ان کی کردار کشی کے مترادف ہے جس کی وجہ سے ان کے فیئرٹرائل اور قانونی عمل (ڈیو پراسس) کے حق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ سے عدلیہ کے ادارے کی بھی بے توقیری ہو رہی ہے۔‘
جسٹس عیسٰی نے خط کی کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزیراعظم کو بھی ارسال کر دی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ردعمل
اس حوالے سے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو صدر کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جذبات میں آ کر خط نہیں لکھنا چاہیے تھا کیوں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی دیانتداری شک و شبے سے بالاتر ہے۔


سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی دیانت شک و شبے سے بالاتر ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسٰی کا خاندان قیام پاکستان سے ہی ایک متمول خاندان سمجھا جاتا ہے اوران کی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جائیدادیں ہیں۔ کنرانی کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسٰی خود بھی کارپوریٹ وکیل رہے ہیں اور اگر ان کے خاندان نے کہیں کوئی جائیداد خریدی بھی ہے تو ان کے پاس اس کے جائز وسائل موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابلیت اوردیانت کے حوالے سے جسٹس عیسٰی کی شہرت بے داغ ہے۔
حکومتی موقف
دوسری جانب ’اردو نیوز‘ کے رابطہ کرنے پر وزیراعظم کی معاون  خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے  ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں کی تردید سے گریز کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے دو دن بعد موقف دے گی۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر صدر پاکستان عارف علوی کے ترجمان میاں جہانگیر نے ججوں کے خلاف ریفرنس سے لاعلمی ظاہر کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا استعفٰی
اس سے قبل بدھ کو ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان زاہد ایف ابراہیم نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدر پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد استعفٰی دے دیاتھا۔ زاہد ابراہیم نے اپنے استعفے میں ان ججز کے نام تو نہیں بتائے تاہم اُنھوں نے اس میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کا ذکر کیا ہے۔
بدھ کے روز ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے زاہد ابراہیم نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ججوں کے خلاف ریفرنس کی تصدیق انہوں نے حکومت کی اعلٰی ترین شخصیات سے کر لی جس کے بعد استعفے کا فیصلہ کیا۔
زاہد ابراہیم کے استعفے میں سپریم کورٹ کے معزز جج کا ذکر ہے اور کہا گیا کہ ان کی ساکھ بے داغ ہے اور ان کے خلاف حکومت نے نظرثانی اپیل ایس ایم سی نمبر سات 2017  میں اپنی رائے خود ہی ظاہر کر دی ہے۔
استعفے میں جس نظر ثانی اپیل کا زکر ہے وہ تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے سے متعلق تھی۔ یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔ فیصلے میں جسٹس عیسی نے وزارت دفاع اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحتوں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے۔
اس فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جو نظرثانی کی پہلی اپیل دائر کی گئی تھی اس میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم بعد میں دوبارہ نظرثانی کی اپیل دائر ہوئی جس میں سپریم کورٹ کے جج کے خلاف لکھے گئے الفاظ حذف کر دیے گئے تھے۔

شیئر: