Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کی انڈیا سے تجارتی جنگ؟ ترجیحی تجارتی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان

ٹرمپ نے مارچ میں انڈیا کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ دیاتھا۔(تصویر:اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا ہے کہ امریکہ انڈیا کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ 5 جون کو ختم کردے گا۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ نے انڈیا کو دیا گیا ترجیحی تجارتی ملک کا درجہ واپس لینے کے ارادے سے رواں سال مارچ کے اوائل میں آگاہ کیا تھا۔
جمعہ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ’میں نے جائزہ لیا ہے کہ انڈیا امریکہ کو اپنی منڈیوں تک مناسب رسائی دینے کا یقین دلانے میں ناکام ہوگیا ہے۔‘
انڈیا امریکہ کے جی ایس پی پروگرام سے سہولت اٹھانے والا سب سے بڑا ملک ہے جس کے تحت وہ اپنی مصنوعات امریکہ کو بغیر محصولات یا ٹیکس ادا کیے برآمد کرسکتا تھا۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انڈیا امریکہ کو اپنی منڈیوں تک مناسب رسائی دینے میں ناکام رہا۔(تصویر:روئٹرز)
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انڈیا امریکہ کو اپنی منڈیوں تک مناسب رسائی دینے میں ناکام رہا۔(تصویر:روئٹرز)

اس سال مارچ میں امریکی صدر نے انڈیا کو دی گئی جی ایس پی پلس سٹیٹس واپس لینے کے حوالے سے کانگریس کو ارسال کردہ ایک خط  میں کہا تھا کہ 'میں یہ قدم اس لیے اٹھا رہا ہوں کيونکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نئی دہلی انتظاميہ نے واشنگٹن انتظاميہ کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ تک منصفانہ اور مناسب رسائی دے گی۔'
 ٹرمپ کے اس خط کے بعد امریکہ کے تجارت سے متعلق دفتر نے ایک بیان میں وضاحت  کی گئی تھی کہ واشنگٹن جی پی ایس کے تحت انڈیا اور ترکی کو دی گئی ترجیحی حیثیت ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک اس حیثیت کے ليے معیارات پر پورا نہیں اترتے۔
 بیان کے مطابق انڈیا یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہا ہے کہ وہ امریکا کو اپنی مارکیٹ تک رسائی دے گا۔ انڈیا نے کئی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے امریکا کی تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہيں۔
اس وقت انڈین حکومت نے کہا تھا کہ ٹرمپ کے فیصلے کا انڈیا کی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

جی ایس پی پروگرام کیا ہے؟

امریکہ کے ’جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز پروگرام‘ کے تحت بعض ممالک کو اپنی مصنوعات امریکہ برآمد کرنے کے لیے ٹیکس سے استثنٰی حاصل ہے۔اس پروگرام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی حالت کی بہتری ہے اور اس پروگرام پر یکم جنوری 1976 سے عمل کیا جارہا ہے۔
جی ایس پی پروگرام کے تحت ترقی پذیر ممالک کی تقریباً 4،800 مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک بغیر محصولات رسائی ممکن بنائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ کے اوائل میں کانگریس کو ایک خط کے ذریعے اپنے فیصلےسے آگاہ کیاتھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’انڈیا کے لیے محصولات کے بغیر تجارت کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ امریکہ کو انڈیا کی منڈیوں تک رسائی نہ دینے پر کیاگیا ہے۔‘

انڈیا امریکہ کے جی ایس پی پروگرام سے سہولت اٹھانے والا سب سے بڑا ملک ہے(تصویر:اے ایف پی)
انڈیا امریکہ کے جی ایس پی پروگرام سے سہولت اٹھانے والا سب سے بڑا ملک ہے(تصویر:اے ایف پی)

صدر ٹرمپ نے امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنے کا عہد کیاتھا اور وہ انڈیا کو امریکی مصنوعات پر محصولات کم کرنے کا متعدد مرتبہ کہہ چکے تھے لیکن خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے پر انہوں نے انڈیا کو جی ایس پی پروگرام سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
انڈین حکام نے ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کو پروگرام سے بے دخل کرنے کی صورت میں 20 سے زائد امریکی مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ درآمدی محصولات لگانے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
امریکی کانگریس کے 24 ارکان نے3 مئی کو انتظامیہ کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انڈیا کو جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز پروگرام (جی ایس پی ) سے بے دخل نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔  

شیئر: