Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دفاعی اخراجات میں کمی:فوج کہاں کہاں کٹوتی کرسکتی ہے؟

پاکستان کی فوج کی جانب سے دفاعی بجٹ میں کمی کے اعلان پر ماہرین کا کہنا ہے اب سویلین حکومت پر دباؤ ہو گا  کہ وہ ملک کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں کتنی سنجیدگی سے ادا کرتی ہے۔
منگل کی رات کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال کے لیے دفاعی بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کمی سے دفاع اور سکیورٹی معاملات پر اثر نہیں پڑے گا۔
فوج کی جانب سے اپنے طور پر دفاع بجٹ میں اضافے نہ کرنے کے بیان پر معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ فوج نے ایک جرات مند فیصلہ کیا ہے اور اس کی ایک وجہ ملک کی معاشی صورتحال بھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے کی ایک شرط کے مطابق پاکستان نے اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق کے مطابق خسارے میں کمی دو طریقوں سے ہی ممکن تھی جس میں ایک دفاعی بجٹ اور دوسرا ترقیاتی بجٹ تھا جس میں اب فوج نے وزراتِ خزانہ کو بتا دیا ہے کہ وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ  نہیں لیں گے۔
„ اب اگر وزارتِ خزانہ اپنے ہدف میں ناکام ہوتی ہے تو فوج پر الزام عائد نہ کریں کہ دفاع کی وجہ سے خسارہ پورا نہیں ہو سکا اور حالیہ اعلان کے بعد وزارتِ خزانہ کے پاس یہ الفظ نہیں رہیں گے کہ ہر طرف کٹوتیوں کی ضرورت تھی لیکن فوج نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ تو اب یہ وہ نہیں بول سکیں گے۔‘

حکومت پر دیگر اداروں کے اخراجات کم کرنے کے لیے دباؤ آئے گا: ماہرین( تصویر اے ایف پی)

تو کیا اس سے دیگر اداروں پر دباؤ آئے گا؟
اس پر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں فوج وہ ادارہ ہے جو حالت جنگ میں ہے جس کے دو لاکھ فوجی جنگ کی حالت میں ہے جبکہ کوئی اور ادارہ اس پوزیشن میں نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ دیگر اداروں کے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں لیکن انھیں چاہیے کہ وہ سسٹم کو سپورٹ کریں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔
„ اس وقت 26 بڑے ادارے ہیں تو اگر یہ اپنا بجٹ دس دس فیصد بھی کم کرتے ہیں تو یہ حکومت کے لیے بڑا ریلیف ہو گا۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے بھی میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے یکطرفہ طور پر فیصلہ کر کے حکومت کو بتایا دیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں کٹوتی کریں تو اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں کتنی اچھی طرح سے ادا کرتی ہے۔
دفاعی بجٹ میں کٹوتی سے فوج کی صلاحیت پر کیا اثرات پڑیں گے؟

پاکستان میں دفاع پر اچھی خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے: تصویر اے ایف پی

میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا کہ آپریشنل ضرورت کے تحت فوج کو تربیتی پروگرامز اور مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اب ان کے خیال میں مشقوں کو کم کیا جائے گا جس میں اگر سال میں چار بڑی مشقیں ہوتی ہیں تو ان کو دو کر دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس میں جنگی تیاریوں پر اثر نہیں پڑے گا لیکن  اس کو اس طرح سے دیکھا جائے کہ اپنی فوج کو تربیت کے لیے بیرکوں سے باہر نکلا جاتا ہے جس میں کافی وسائل خرچ ہوتے ہیں تو اب یہ ایسا ہو گا کہ اس کو میپ یعنی نقشوں کی مدد سے تربیت میں تبدیل کر دیا جائے گا جس میں ٹینکوں، توپوں اور گاڑیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
’اس میں تربیت آپریشنل رومز کے اندر ہوتی ہے جس کو ہم وار گیمنگ ایکسرسائز کہتے ہیں اور ان پر اخراجات دس گنا تک کم ہوتے ہیں۔‘
اسی بارے میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں فوج اگر ایک سال مشقیں نہیں بھی کرتی تو اس سے کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا لیکن یہ ایک سال سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے اچھے نتائج نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ بجٹ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خیال میں ایسے افسران کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو گا جن کی تنخوا پہلے ہی زیادہ ہے اور اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں ایف سی کی نفری میں اضافہ شاید ممکن نہ ہو سکے ۔

عسکری امور کے ماہرین کے مطابق فوجی مشقوں میں کمی کی جا سکتی ہے: تصویر اے ایف پی

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کے مطابق جہاں تک راشن میں کٹوتی کے بارے میں کہا جا رہا ہے تو پہلا اس میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جوانوں کے لیے پہلے ہی راشن ضرورت کے مطابق ہی ہے تاہم اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ پہلے ایک ہزار جوان کے لیے راشن چاہیے ہوتا تھا تو احتیاطً گیارہ سو کا خریدا جاتا تھا لیکن اب پورا پورا ہی خریدا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت فوج کے بجٹ میں اضافہ نہ ہونے سے ملک کی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہو گی بلکہ اس میں دیگر اداروں کو بھی آگے آنا پڑے گا۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کے مطابق اراکین پارلیمان کی مراعات کو بھی دیکھنا پڑے گا جس میں اگر ایوان میں ملنے والی چائے کی بات کی جائے تو باہر کے مقابلے میں ایک کپ کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
کیا انڈیا سے تعلقات بہتر ہونے جا رہے ہیں؟

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں: تصویر اے ایف پی

تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے بھی دفاعی بجٹ میں کمی کو خوش آئندہ قرار دیتے ہویے کہا کہ پاکستان میں گذشتہ ستر برس سے انڈیا کے ساتھ خراب تعلقات کی بنیاد پر دفاع پر بھاری رقم خرچ کی جاتی تھی۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق ان کے خیال میں اب فوج کہیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ انھیں انڈیا کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ نہیں رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ فوج کے اس اعلان سے اس کی ساکھ بھی مزید بہتر ہو گی لیکن ساتھ ساتھ کٹوتی کے فیصلے کو ٹول کے طور پر بھی استعمال کرنے کے امکانات ہیں۔
 دریں اثناء آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  نے لائن آف کنٹرول پر تعینات جوانوں کے ساتھ عید کا دن گزارا۔
اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے  دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافے نہ لینے کا فیصلے سے متعلق کہا کہ یہ اقدام قوم پر احسان نہیں۔ہم ایک ہیں اور یہ اقدام ہر قسم کے حالات میں یکجہتی کے عزم کا اعادہ ہے۔
  آرمی چیف  کا کہنا تھاکہ بجٹ کٹوتی کو دفاعی صلاحیت اور جوانوں کے معیار زندگی پر اثرانداز کئے بغیر آنے والے مالی سال میں دیگر امور میں ایڈجسٹمنٹ سے پورا کیا جائے گا۔

آرمی چیف کنٹرول لائن پر جوانوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کر رہے ہیں(فوٹو:آئی ایس پی آر)

 تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ بھی صرف آفیسرز کا ہے جوانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے انپے بیان میں کہا ہے انڈین جعلی میڈیا دفاعی بجٹ پر مرضی کے تجزیئے کر رہا ہے۔  پاک فوج نے اسی بجٹ کے ساتھ27فروری کو بھر پور جواب دیا تھا۔ہم جواب دینے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔
 انڈیا یہ نہ بھولے ہم وہی ہیں جنہوں نے اسی دفاعی بجٹ کے ساتھ27فروری کا آپریشن کیا تھا۔افواج پاکستان کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔بجٹ اہم نہیں،عزم اور حوصلہ اہمیت رکھتا ہے۔

شیئر: