Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیشے سے شاہکار تخلیق کرنے والا پاکستان کا واحد ہنرمند

شیشے پرخوبصورت نقش و نگار یا خاص ترتیب میں رنگ برنگے شیشے آپ نے کہیں نہ کہیں ضرور دیکھے ہوں گے لیکن شیشے کی سطح کو کھرچ کر کوئی شاہکار تخلیق کرنا بالکل انوکھا کام ہے۔
اس کام کے پاکستان میں صرف ایک ہی ماہر ہیں۔۔۔ قاسم علی۔ 
قاسم علی کو ہمیشہ سے کچھ الگ کرنے کا شوق تھا اور اسی جستجو نے انہیں شیشے جیسی نازک چیز کو کندہ کر کے آرٹ کے نمونے تخلیق کرنے کا ماہر بنا دیا۔
 دنیا بھر میں ’گلاس ایچنگ‘ کے نام سے جانے جانے والے اس آرٹ میں شیشے کو کھرچ کر کچھ تخلیق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں یہ کام کوئی اورنہیں کرتا۔ 
قاسم محض گلاس ایچنگ کا روایتی کام نہیں کرتے بلکہ وہ اس کام میں مزید جدت لائے ہیں اور نت نئے ڈیزائن تخلیق کرتے رہتے ہیں۔
 ان کے شیشے پر کندہ کیے گیے پرانے ماڈل کی گاڑی یا سپورٹس بائیک کے نمونے ایسے ہوتے ہیں جیسے ان کی باقاعدہ چھپائی کی گئی ہو۔

یہ قاسم جیسے ہنرمند ہیں جن کے دم سے اتنا تخلیقی کام آج بھی زندہ ہے

 قاسم علی کا کہنا ہے کہ گلاس ایچنگ بہت مشکل کام ہے۔ 
’اس فن کے لیے آرٹسٹ کے ہاتھ میں صفائی کا ہونا لازمی ہے۔اس میں ذراسی لائن ادھر سے ادھر گئی یا شیشے پرغلط سٹروک لگ گیا تو سارا کام نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گلاس ایچنگ میں غلطی کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ ایک گو میں آپ نے کام کرنا ہے۔  گلاس کھرچتے وقت آپ ڈر نہیں سکتے، ڈر کر کام کریں گے تو یہ خراب ہو جائے گا، آپ کام نہیں کر سکیں گے۔‘
قاسم کے بقول گلاس کو کھرچنے کے بعد اس کو روشن کر کے جس انداز سے انہوں نے پیش کیا ہے وہ کہیں بھی کوئی نہیں کر رہا۔ اس کے علاوہ وہ شیڈو آرٹ کے ذریعے شیشے پر کندہ شاہکار کو دیوار یا سکرین پروجیکٹ کر کے ایک منفرد عکس پیدا کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
قاسم علی کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ دن کی روشنی میں تو بہت سا آرٹ ہے لیکن رات کے اوقات میں اس طرح کی کوئی خاص چیز نہیں ہے کہ لائٹس بند ہوں اور بندہ سکون سے کسی جگہ جا کر بیٹھ جائے اور اس کو کوئی اچھی چیز دیکھنے کو ملے۔‘
معروف مصور جمال شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں قاسم کے علاوہ کسی کو گلاس ایچنگ کا کام کرتے نہیں دیکھا۔ 

 قاسم علی کا کہنا ہے کہ گلاس ایچنگ بہت مشکل کام ہے

ثقافت اور ورثے کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ سعید کے خیال میں گلاس ایچنگ کا کام پاکستان میں اس لیے بھی کوئی نہیں کرتا کیونکہ یہ اب بڑی مشینری پر منتقل ہونے لگا ہے۔
‘یہ قاسم جیسے ہنرمند ہیں جن کے دم سے اتنا تخلیقی کام آج بھی زندہ ہے۔’
قاسم علی کے کام کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد میں آرٹس اینڈ کرافٹس ویلیج میں انہیں اپنے نادر نمونوں کا سٹال لگانے کا موقع دیا گیا۔ لوگوں نے ان کے منفرد کام کو خوب پسند کیا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ حکومت نے فنڈز میں کمی کے بعد قاسم علی اور ان جیسے کچھ اور فنکاروں کو کرافٹ ویلیج سے چلتا کر دیا۔

قاسم محض گلاس ایچنگ کا روایتی کام نہیں کرتے بلکہ وہ اس کام میں مزید جدت لائے ہیں

قاسم علی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں آرٹ کی کوئی قدر نہیں ہے۔ میں نے کچھ نیا کیا، مارکیٹ میں لے کر آیا تو لوگوں نے پسند کیا مگر وہ سپورٹ اور پذیرائی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔‘
 گلاس ایچنگ کا کام جتنا نایاب ، نازک اور احتیاط والا ہے اتنا ہی قیمتی بھی ہے۔ 
قاسم علی کے مطابق تقریبا 40 انچ کے فریم کی قیمت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک ہے جبکہ اس سے بڑے فریم کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے۔ 
اب قاسم علی اپنے کام کو کسی پبلک مقام جیسے اسلام آباد ایئر پورٹ پر لگانا چاہتے ہیں تا کہ ایسے مقامات کو مقامی اور منفرد آرٹ سے سجایا جا سکے۔ 

شیئر: