Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آپ جسمانی ریمانڈ اور جوڈیشل ریمانڈ میں فرق جانتے ہیں؟

احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔ احتساب عدالت نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا اور اس نوعیت کی بے شمار خبریں ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی پر سنتے ہیں تاہم ہم میں سے کئی لوگ نہیں جانتے کہ یہ جسمانی ریمانڈ (فزیکل ریمانڈ) اور جوڈیشل ریمانڈ میں کیا فرق ہے.
اردو نیوز نے اس حوالے سے سینیئر قانونی ماہرین سے رابطہ کر کے ان سے جاننے کی کوشش کی کہ جوڈیشل ریمانڈ اور جسمانی ریمانڈ میں کیا فرق ہے اور یہ کتنے روز کا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک ادارہ مثلاً اے این ایف، نیب، ایف آئی اے یا پولیس جب ایک ملزم کو گرفتار کرتی ہے تو پھر اسے 24 گھنٹوں کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرنا لازم ہوتا ہے۔

احتساب عدالت نے نیب کو آصف زرداری کا مزید 13 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا، تصویر: اے ایف پی

متعلقہ ادارہ ملزم کو عدالت میں پیش کر کے استدعا کرتا ہے کہ اس نے ملزم سے کوئی ریکوری کرنی ہے یا کوئی ضروری معلومات حاصل کرنی ہیں لہٰذا تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دے کر ملزم کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اے این ایف، نیب، پولیس، ایف آئی اے یا ملزم کو گرفتار کرنے والے کسی بھی ادارے کو ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے عدالت کو وجہ بتانا ہو گی۔
بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا کہ عدالت متعلقہ ادارے یا تفتیشی ایجنسی کی درخواست پر ملزم کا جسمانی یا فزیکل ریمانڈ دیتی ہے۔ عدالت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 روز تک کا جسمانی ریمانڈ دے سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم 14روز یا جتنے دن کا ریمانڈ عدالت دیتی ہے اتنے روز وہ تفتیش کے لیے متعلقہ ادارے کی تحویل میں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ دے یا نہ دے۔ 
اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے عمران فیروز ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ اس سے کوئی چیز ریکور کرنے کے لیے لیا جاتا ہے یا اس سے کوئی ایسی حقیقت جاننے کے لیے جس کا علم صرف ملزم ہی رکھتا ہو۔ 

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی جسمانی ریمانڈ اور جوڈیشل ریمانڈ کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، تصویر: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ جسمانی ریمانڈ کے دوران ملزم ضمانت کی درخواست دائر نہیں کر سکتا۔
جب ملزم سے جسمانی ریمانڈ کے دوران تفتیش مکمل ہو جاتی ہے تو پھر عدالت اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیتی ہے، یعنی ملزم سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور وہی اسے عدالت میں پیش کرنے اور واپس جیل لے جانے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا کہ جب عدالت نیب یا ایف آئی اے کو ملزم کا ایک بار جسمانی ریمانڈ دے دیتی ہے تو پھر اس میں دوسری یا تیسری بار توسییع بھی ہو سکتی ہے۔ جسمانی ریمانڈ کے دوران ملزم سے تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالت ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیتی ہے جہاں اس سے تفتیش نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ جوڈیشل ریمانڈ دینے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت نے ملزم کو جیل بھجوانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ منشیات سمگلنگ کیس میں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، تصویر: اے ایف پی

عمران فیروز ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب قوانین کے تحت نیب ملزم کا 90 روز تک کا جسمانی ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم عدالت یہاں بھی ایک بار 14 روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے لیے لازمی نہیں کہ وہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ دے، بعض اوقات عدالت ملزم کا جسمانی ریمانڈ دیے بغیر ہی اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کے احکامات جاری کر دیتی ہے۔
بیرسٹر مسرور شاہ کہتے ہیں کہ جوڈیشل ریمانڈ پر ملزم سے جیل میں تفتیش صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب نیب، ایف آئی اے، اے این ایف یا متعلقہ ادارہ کسی نئے کیس میں ملزم کی گرفتاری ڈال دے اور عدالت اسے نئے مقدمے میں تفتیش کی اجازت دے دے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملزم جسمانی ریمانڈ کے دوران ضمانت کے لیے درخواست نہیں دے سکتا البتہ ضمانت قبل از گرفتاری کرا سکتا ہے یا پھر جیل جانے کے بعد ضمانت کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔

شیئر: