Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہیڈ کوچ مکی آرتھر تو جیسے ورلڈ کپ میں نظر ہی نہ آئے‘

آئی سی سی ون ڈے رینکنگ کی چار بہترین ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچ گئیں اور پاکستان سمیت باقی چھ باہر ہوگئیں۔ 
اس ورلڈ کپ کے لیے گذشتہ تین سالوں میں سب سے بہترین تیاری کرنے والی میزبان انگلینڈ ہی اتار چڑھاؤ کے بعد ٹائٹل کے لیے فیورٹ بلکہ شاید سب سے حقدار ٹیم بھی ہے۔ 
لیکن کیا وجہ بنی کہ دو سال قبل آئی سی سی چیمپینز ٹرافی جیتنے والی سرفراز الیون دھوکہ دے گئی۔

ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو نو میں سے پانچ میچز جیتنے والی سرفراز الیون کی پرفارمنس نہ تو بھیانک رہی اور نہ ٹیم کوئی کرشمہ دکھا سکی۔
چار میں سے دو سیمی فائنلسٹ ٹیموں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کو ہراکر ٹیم نے یہ تو بتادیا کہ پاکستان کی کرکٹ میں دم خم باقی ہے لیکن سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ اب ورلڈ کلاس ٹیم نہیں رہی اور چیمینز ٹرافی کی جیت شارٹ فارمیٹ کے ذریعے ممکن اور ورلڈ کپ 2019 کے لانگ فارمیٹ نے ایک ایک کرکے اس ٹیم کی ہر شعبے میں قلعی کھول دی ۔
ورلڈ کپ کی تیاری
دو ہزار پندرہ ورلڈ کپ کے بعد مصباح الحق اور شاہد آفریدی ریٹائر ہوئے تو اظہر علی کو کپتان بنا کر پاؤں پر کلہاڑی ماری گئی۔ جس کھلاڑی کی اس وقت ون ڈے میں صرف جگہ ہی بنتی تھی وہ کپتان بن کر آیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کو ون ڈے سیریز میں کلین سویپ کرکے اس اعتماد اور بھروسے کی بنیاد رکھی جس کی بدولت وہ ورلڈ کپ 2019 سے پہلے اور پھر میگا ایونٹ کے دوران بھی سر اٹھا کر کھیلتے دکھائی دئیے۔
جبکہ پاکستانی ٹیم اس عرصے میں 45 میچز ہارنے اور 39 جیتنے کے بعد گھبرائی ہوئی اور بوکھلاہٹ میں مبتلا ہو کرورلڈ کپ میں اتری۔
یعنی
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 
پاکستان کی ٹیم نے 2013 میں جنوبی افریقہ کو ون ڈے سیریز میں مصباح کی کپتانی میں ہرایا لیکن اس کے بعد ٹیم آسٹریلیا، جنوبی افریقا، نیوزی لینڈ ، انگلینڈ حتٰی کہ بنگلہ دیش کو بھی ون ڈے سیریز میں شکست نہ دے سکی اور یہی عدم اعتماد ورلڈکپ میں جھلکتا رہا۔

ورلڈکپ میں کارکردگی اپنی یا ٹیم کے لیے؟
ورلڈ کپ دو ہزار انیس سے قبل اپنا آخری ورلڈ کپ کھیلنے والے شکیب الحسن خود سلیکٹرز کے پاس گئے اور نمبر تین کی اہم پوزیشن پر کھیلنے کی خواہش ظاہر کی۔ میگا ایونٹ میں چھ سو سے زائد رنز بناکر جہاں شکیب نے خوب داد سمیٹی وہیں بنگلہ دیش نے بھی عوامی اور کراؤڈ فیورٹ ٹیم کا خطاب جیتا۔
لیکن دوسری جانب پاکستانی کرکٹرز انفرادی کارکردگی کی دوڑ میں نظر آئے۔ ٹیم مینجمنٹ کا کوئی پلان نظر آیا نہ کھلاڑی کسی رول کے مطابق ان ایکشن نظر آئے۔ فخرزمان تو جیسے کھیلنا ہی بھول گئے۔ 
امام الحق نے ٹیلنٹ کی جھلک کئی بار دکھائی لیکن ٹیم کی ضرورت کئی زیادہ تھی۔ بابر اعظم توقعات سے بڑھ کر کھیلے، حارث سہیل بھی ابھر کر سامنے آئے لیکن حفیظ اور ملک نہ تو شکیب الحسن کی طرح ذمہ داری دکھا سکے اور نہ ہی روہت شرما آرون فنچ اور کین ولیم سن کی طرح رنز کے ڈھیر لگاسکے اور نوجوان بیٹسمین پریشر کے بوجھ میں دبتے گئے۔
کپتان بھی سرفراز نہ ہوسکے۔ نہ ہی دیگر کپتانوں کی طرح جرات سے آگے بڑھ کر کھیلنے میں ناکام رہے بلکہ افغانستان کے میچ میں ضرورت پڑنے پر جس انداز میں رن آؤٹ ہوئے وہ اس ٹیم کی حالت زار کا عکاس تھا کہ دباؤ میں اعصاب پر قابو پانے والا اس ٹیم میں کوئی نہیں اور سب سے بڑھ کر کپتان اہم میچز میں بنیادی غلطیاں کرتے دکھائی دئیے ۔ ٹیم مینجمنٹ اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر تو جسیے ورلڈ کپ میں نظر ہی نہ آئے۔
محمد عامر نے وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن پاور پلے میں عامر سمیت کوئی باولر آسٹریلیا اور بھارت کے اہم میچز میں وکٹیں لینا تو درکنار فائٹ بھی نہ کرسکے اور ان دونوں میچز میں شکست نے ٹیم کے ورلڈ کپ میں مستقبل کا تعین کردیا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں عبرتناک شکست کے بعد حیران کن طور پر بقیہ کسی میچ میں رن ریٹ کی بہتری کی کوشش نہ کی گئی۔ اور نیوزی لینڈ پاکستان کو اس ریس میں  مات دے گیا۔

ابتدائی اور مڈل اوورز میں ایوریج کارکردگی
ٹیم کی بیٹنگ اور باولنگ کے ساتھ سرفراز کی کپتانی شروعات اور مڈل اوور میں واجبی رہی۔ شروعات کے میچ میں عامر کے نئے گیند کے پارٹنر کا اتا پتا نہ تھا۔
حسن علی سے زبردستی نئی گیند کروائی گئی جبکہ وہ فرسٹ چینج باولر کے طور پر ہمشیہ کامیاب رہے۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں شاداب باہر اور بھارت کے خلاف میچ میں سپنرز کی فوج کھلوا کر کر ثابت کیا گیا کہ مینجمنٹ بنیادی معلومات سےعاری ہے اور  یہ کرکٹ کے لحاظ سے خود کشی کرتی دکھائی دی۔
نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف میچز میں جلد وکٹیں حاصل کرنے کے باوجود حریف ٹیموں کو جلد آؤٹ کرنے کا موقع گنواکر رن ریٹ بہتر کرنے کا موقع ضائع کردیا گیا اور نتیجہ نو میں سے پانچ میچز جیت کر بھی گھر واپسی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
مستقبل کیا؟
2015 کی طرح اور بعد میں بھی سرفراز کے ساتھ نوجوان کپتان گروم کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی۔ ورلڈ کپ کے بعد کوچز اور سلیکشن کمیٹی کی چھٹی تو یقینی لیکن کپتان سرفراز کا متبادل کون؟

ورلڈکپ کے پازیٹو سائیڈ افیکٹس
ورلڈ کپ کے نو میں سے پانچ جیتنے اور صرف تین میچ ہارنے والی ٹیم کی کارکردگی کسی طور انتہائی خراب نہیں قرار دی جاسکتی۔ لیکن سرفراز الیون اس ورلڈ کپ فارمیٹ کے مطابق وہ معیار نہ دکھاسکے جو آسٹریلیا انگلینڈ اور بھارت کا خاصہ رہا۔
ہاں البتہ نیوزی لینڈ خوش قسمت ثابت ہوا جو تمام بڑی ٹیموں سے شکست کے بعد بھی سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ نوجوان کھلاڑیوں بابر اعظم ، حارث سہیل ، شاہین شاہ آفریدی نے جس انداز میں کارکردگی دکھائی اور دنیا بھرسے داد سمیٹی، امام، شاداب، حسن بھی مستقبل کے سپر سٹار بن سکتے ہیں لیکن اس ٹیم کو رہنما کی ضرورت ہے۔
لیکن سرفراز کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں، سرفراز بھی لیڈنگ فرام دی فرنٹ پر عمل پیرا نہیں اور یہی اس ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ نظر آرہا ہے۔
سیمی فائنل میں پہنچنے والی چاروں ٹیموں کے چار بہترین کپتانوں اور بیٹسمینوں وہرات کوہلی,کین ولیم۔سن، مورگن اور آرون فنچ کی طرح پاکستان کو بھی ایک ایسے کپتان کی ضرورت ہے جو لیڈنگ فرام دی فرنٹ اور مکمل اتھارٹی کے ساتھ سلیکشن معاملات میں اپنی بات منواسکے،سب سے بڑھ کر میچز جتواسکے۔ سرفراز کو یہ سب سیکھنا اور کرنا ہوگا۔
کیونکہ اب پاکستان کرکٹ کو اوپر لانا ہے تو عمران خان جیسا دوسرا کپتان چاہیے۔

شیئر: