Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بے سہارا کتے بلیوں کو سہارا دینے والی راہبر‘

انیلہ عمیر اسلام آباد میں واقع ایک بین الاقوامی ادارے کی دن بھر کی پیچیدہ دفتری مصروفیات کو نمٹا کر راولپنڈی کے باغ سرداراں میں واقع اپنے گھر جا رہی ہیں۔
اپنے گھر کے قریب پہنچتے ہی سڑک کنارے انہیں ایک زخمی کتا نظر آتا ہے جو انتہائی بری حالت میں ہے اور قریب المرگ محسوس ہوتا ہے۔
انیلہ اس کتے کو اٹھاتی ہیں اور ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہیں۔ وہاں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کتے کو 106 درجےکا بخار ہے۔ انیلہ اس کے زخموں پر مرہم پٹی کرواتی ہیں، نہلاتی ہیں اور اس کو مزید علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کروا دیتی ہیں۔
کتے کے صحت یاب ہونے کے بعد انیلہ نے اس کو ’روکی‘ کا نام دیا اور اپنی ایک جاننے والی خاتون جینیفر کو گود دے دیا۔
روکی کوئی پہلا کتا نہیں جو انیلہ نے ریسکیو کیا۔ وہ اب تک گلی محلوں میں زندگی کی جنگ لڑتے سینکڑوں کتوں اور بلیوں کی جانیں بچا کر انھیں لوگوں کو گود دے چکی ہیں۔
انکے اپنے گھر پر اس وقت دو درجن سے زائد بلیاں اور دو کتے موجود ہیں۔ انہوں نے ان سب کی نہ صرف جان بچائی بلکہ ان کو اپنے گھر لے آئیں۔  

انیلہ اب تک گلی محلوں میں زندگی کی جنگ لڑتے سینکڑوں کتوں اور بلیوں کی جانیں بچا کر انھیں لوگوں کو گود دے چکی ہیں۔

انیلہ عمیر پچھلے 14 سال سے جانوروں کو بچانے کا کام کررہی ہیں یعنی وہ Animal Rescuer ہیں۔
انہیں بچپن سے جانوروں کی خدمت کا شوق ہے اور یہ شوق اور احساس انھیں اپنی والدہ سے ورثے میں ملا۔ 
انیلہ عمیر گلی محلوں، سڑکوں اور بازاروں سے زخمی کتے اور بلیاں اٹھاتی ہیں، ان کا علاج کرواتی ہیں اور اپنے گھر پر رکھ لیتی ہیں۔
انیلہ کے گھر کا منظر کسی بھی عام گھر سے یکسر مختلف ہے۔ چھوٹے سے صحن میں رکھی پلاسٹک کی دو کرسیاں اور میز، برآمدے میں رکھے ڈائننگ ٹیبل اور بیٹھک میں روم کولر کے سامنے لگے صوفوں پر بلیوں کا راج ہے۔ بلیوں کے کھیلنے ، رفع حاجت اور کھانے پینے کا بھی بہترین انتظام کیا گیا ہے۔ 
ان بلیوں کے درمیان ایک کتا بھی موجود ہے جو اب خود کو بلی ہی سمجھنے لگا ہے اور اس کی بھونکنے کے علاوہ ساری حرکتیں بلیوں جیسی ہی ہیں۔ انیلہ کی جانب سے اگر کسی بلی سے زیادہ پیار دکھائی دے تو حسد میں آ کر اس کو دور بھگا دیتا ہے اور خود انیلہ کے قریب رہنا پسند کرتا ہے۔ 
لوگ انیلہ کو جانوروں کو بچانے والی کے حوالے سے جانتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ٹیگ کرکے یا فون کے ذریعے اطلاع دیتے ہیں کہ فلاں جگہ زخمی بلی یا کتا پڑا ہے اسے مدد کی ضرورت ہے تو وہ جا کر اسے اٹھا لیتی ہیں۔
انیلہ کے مطابق ہر کتے بلی کی اپنی ایک کہانی ہے۔

انیلا کے گھر میں اس وقت دو درجن سے زائد بلیوں اور دو کتوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔

ان کے پاس 14 سال سے موجود کتا بلیوں کو پسند نہیں کرتا۔  اس لیے اس کو بالائی منزل پر بند رکھا گیاہے۔ ایک بلی بھی دس سال سے ان کے پاس ہے جو اب بوڑھی ہو جانے کی وجہ سے اکثر سوئی رہتی ہے۔
ایک اور بلی جس کا نام انھوں نے بلائنڈو رکھا ہے وہ دونوں آنکھوں سے محروم ہے۔ انیلہ کے مطابق جب وہ اسے پیٹ مارکیٹ سے لیکر آئیں تو اس کی انکھیں زخمی ہونے کی وجہ سے ابل رہی تھیں اور انفیکشن کے باعث ڈاکٹر نے ان کو نکالنا ہی مناسب سمجھا۔  
یہ نابینا بلی گھر میں کھانے، پیشاب کرنے کی جگہ اور انیلہ اور ان کی امی کی آواز پہچانتی ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے۔ 
انیلہ کہتی ہیں کہ ہر کوئی کتے اور بلیاں نہیں پال سکتا بلکہ اس کے لئے ایک ماں کا سا احساس چاہیے جو ان کے دکھ درد کو سمجھ سکے جو ہر لمحے یہ احساس رکھے کہ فلاں والی بلی اپنی فطری نیند سے زیادہ کیوں سو رہی ہے، فلاں کی میاوں کی آواز کیوں تبدیل ہے اور فلاں اپنی معمول کی خوراک کیوں نہیں لے رہی بلکہ یہاں تک کہ کس کو کچا کھانا پسند ہے اور کون ابلا ہوا یا پکا ہوا کھانا پسند کرتا یا کرتی ہے۔
انیلہ ان کتے بلیوں کی خوراک اور علاج معالجے پر ماہانہ 50 سے 60 ہزار روپیہ خرچ کرتی ہیں جس میں سے کچھ وہ اپنی تنخواہ سے نکالتی ہیں اورکچھ بھائی سے جیب خرچ ملتا ہے۔ اگر پھر بھی پیسے پورے نہ ہوں تو وہ چندے کا سہارا لیتی ہیں۔

جانوروں کے حقوق کی پاسداری کرنے والوں کے خیال میں جانوروں کی مارکیٹ اور چڑیا گھر کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے جہاں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ 

انیلہ کا ماننا ہے کہ جب آپ کسی جانور کو زہر دیکر کر مارتے ہیں تو اس کی باقیات ہوا اور پانی میں تحلیل ہوکر انسانوں کے پیٹ تک پہنچتی ہیں۔
اسی طرح آوارہ کتوں کو گولی ماری جاتی ہے جو کہ زخمی ہو کر کئی کئی دن اذیت سے دوچار رہتے ہیں اور کیڑے پڑ جانے کے باعث ماحول پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ 
انیلہ کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ ایسے جانوروں کو پکڑا جائے، ان کی نس بندی کی جائے اور انھیں شہر سے باہر کسی جگہ چھوڑ دیا جائے۔ یا پھر ان لوگوں کو گود دے دیا جائے جنھیں جانور پالنے کا شوق ہے۔
 وہ جانوروں کی مارکیٹ اور چڑیا گھر کا بھی خاتمہ چاہتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان جگہوں پر جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہ بیمار یا زخمی ہوجاتے ہیں اور بالآخر مرجاتے ہیں۔ 
انیلہ گلی محلوں سے بچائے جانیوالے جانوروں کو دوسرے لوگوں کو گود بھی دیتی ہیں لیکن اس کے لیے ان کی مخصوص شرائط ہیں، اگر گود لینے والا فرد وہ شرائط پوری نہ کرے تو پھر جانور اس کے حوالے نہیں کیا جاتا، اور وہ اپنی تمام عمر انیلہ کے گھر پرہی رہتا ہے۔
 انیلہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ گود لینے والا فرد جانور کو تاحیات اپنے ساتھ رکھے گا۔ کتے یا بلی کو نیوٹرل کروایا جائےگا تاکہ وہ مزید بچے پیدا کرواکے اسے کاروبار نہ بنائے۔ اپنی مالی حیثیت بھی ثابت کرنا ہوگی جس سے ثابت ہو کہ وہ جانوروں کے ڈاکٹر کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے۔
 اور سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ جانور گود لینے والے کو جانوروں سے لگاؤ ہو اور وہ درد دل رکھتا ہو ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں