Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک کھلا خط کراچی کے نام

کراچی کا کچرا اس وقت ملک کی اہم خبروں میں شامل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پیارے کراچی!
پتہ چلا ہے کہ تم بارشوں کے پانی میں ڈوب گئے ہو، یہ سن کر ہمارا تو دل ڈوب گیا۔
ایک زمانہ تھا کہ دنیا تمہیں عروس البلاد کہتی تھی، تم پاکستان کے ماتھے پر ایک جھومر تھے، تمہاری سڑکیں سرشام پانی سے دھلا کرتی تھیں، دنیا بھر کے سیاح یہاں سیر کو آیا کرتے تھے، تمہارے شہریوں کو 40 کی دہائی میں ہی ٹرام کی شکل میں میٹرو کی سہولت میسر تھی، سب کو پینے کا صاف پانی ملتا تھا، تمہارا دامن اتنا وسیع تھا کہ جو تمھارے پاس آیا اسے پناہ دی، روزگار دیا، سر چھپانے کو چھت دی، تمہیں اسی لیے توغریب کی ماں کہا جاتا تھا۔
تم پارس کا وہ پتھر تھے جو تم سے چھو گیا وہ سونا بن گیا، ہر مذہب اور ہر زبان بولنے والا تمہاری گلی کوچوں میں سر اٹھا کر پھرتا تھا۔ مسلم ، پارسی، مسیحی، بودھ حتیٰ کہ یہودی تک بلا خوف و خطر آباد تھے۔

زیادہ بارشوں سے کراچی کے عوام مشکلات کا شکار ہے (فوٹو اے ایف پی)

تمہارے ماضی کی شان و شوکت کی تو سپریم کورٹ نے بھی گواہی دی ہے چائنہ کٹنگ اور زمین پر ناجائز قبضوں سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس گلزار نے کہا تھا کہ ’ماضی میں کراچی یورپ کا شہر لگتا تھا اور لوگ لندن جانے کے بجائے یہاں آتے تھے لیکن اب شہر کا کیا حال کردیا گیا ہے؟‘
میرے کراچی تم تو پورے ملک کی معیشت کی جان تھے،  تم سب کے محبوب تھے ہر کوئی تمہارے گن گاتا تھا، پھر نہ جانے کیا ہوا؟ تمہارے حسن کو نظر لگ گئی، حکمرانوں نے منہ پھیر لیا، تمہیں لاوراث سمجھ کر چھوڑ دیا گیا، لسانیت کا زہر تمہاری رگوں میں گھولا گیا۔
 تمہاری پہچان وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا مگر پھر یہاں وہ لوگ مسلط کر دیے گئے جو پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے تھے، تم پر مختلف مافیا حکومت کرنے لگے، لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا، بھتہ مافیا۔ ٹارگٹ کلنگ تمہاری پہچان بنا دی گئی اور وہ وقت آیا جب تمہارا نام سن کر ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔

نوے کی دہائی میں کراچی پرتشدد واقعات کا شکار رہا (فوٹو اے ایف پی)

تمہارے خوبصورت پارک اور میدانوں پر چائنہ کٹنگ کے ذریعے قبضہ کر لیے گئے، تمہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا اس میں کچھ اپنوں کی مہربانیاں اور کچھ غیروں کی سازشیں شامل تھیں۔ تمہیں کس طرح لوٹا گیا اس بارے میں تمھارے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کراچی میں امن و امان کی صورتحال غلطیوں اور ناکامیوں کے باعث خراب ہوئی جن میں انتظامی ناکامی اور ناکارہ سیاست شامل ہے۔ یہاں حکومت تو ہے لیکن حکومت کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے۔‘ انہی دنوں رینجرز کی جانب سے اعلامیے میں انکشاف کیا گیا کہ ’کراچی میں سالانہ 230 ارب روپے سے زائد رقم غیر قانونی طریقوں سے وصول کی جاتی ہے۔ یہ رقم، زمینوں پر قبضوں، بندرگاہوں سے بھتوں، ایرانی تیل کی سمگلنگ سمیت دیگر ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔‘
پھر تمہارا آپریشن کیا گیا، رینجرز نے بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی۔ سیکورٹی اداروں نے تو اپنا کام پورا کر دیا مگر اس کے بعد نہ تو سندھ حکومت اور نہ ہی وفاق نے تمہارے زخموں پر مرہم رکھا، کوئی تمہیں اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے، تمہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ۔

کراچی میں آج بھی مختلف مذاہب کے پیروکار آباد ہیں (فوٹو اے ایف پی)

میرے کراچی صرف 54 ملی میٹر بارش نے تمہارا کیا حال کر دیا، 19 افراد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے تھے، دنیا کے کسی اور شہر میں یہ سانحہ ہوتا تو ہنگامہ برپا ہو جاتا لیکن یہاں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، کوئی کے الیکٹرک سے حساب مانگنے پر تیار نہیں کہ شہر میں لگے بجلی کے کھمبے کیوں موت کا پھندہ بن گئے؟ 
مگر کسی میں سوال پوچھنے کی ہمت نہیں، اس لیے کہ وفاقی حکومت میں بھی کے الیکٹرک کے مالکان کا اثرو رسوخ ہے تو سندھ حکومت بھی ان کے چاہنے والوں میں شمار ہوتی ہے، اس لیے تمہارے شہریوں کی یہ 19 لاشیں کسی کے ضمیر پر بوجھ نہ بن سکیں۔
سندھ حکومت تم سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے تو تبدیلی کے دعویدار وزیراعظم عمران خان جنہیں تم نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں جیت کر دیں، ان کے پاس بھی تمہارے لیے وقت نہیں ہے۔ ملک کے صدر مملکت بھی تمہاری آغوش سے نکل کر ایوان صدر میں پہنچے ہیں، ماضی میں تو وہ تمہاری ہر مشکل پر آواز اٹھاتے تھےلیکن لگتا ہے کہ انہوں نے بھی تمہیں بھلا دیا ہے۔ 
میرے کراچی تمہیں لاوراث سمجھ کر پانی میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، تمہیں کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا، تمہاری قیمتی زمینوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ ڈالا گیا۔ تمہارے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں، مگراس کے باوجود تم آج بھی ہمارے لیے سب سے اہم ہو۔
حکمرانوں نے تم کو نظر انداز کیا ہے لیکن پاکستان کے سارے لوگ تم سے پیار کرتے ہیں اور تمہارا حال دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں، میرے کراچی یہ خط تم سے وابستگی کا ایک اظہار ہے:
’کراچی‘ جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب 
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے 
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا 
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

شیئر: