Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نازیہ حسن: ’آپ جیسا کوئی۔۔۔‘ اب کہاں سے آئے

ٹاہلی دے تھلے بے کے، پیار دیاں گلّاں اور وہ بھی گلابی پنجابی میں، کرنے والی تھی بہت کالہی (جلدباز)، لگتا تھا جیسے کسی نے اس کی زندگی کا فارورڈ بٹن دبا دیا ہو۔ سب کچھ بہت تیز چلا، سکول کے دنوں میں پہلا گانا چُٹکی بجاتے ریکارڈ کروایا تو آناً فاناً ریکارڈ توڑ ثابت ہوا۔ صرف 15 سال کی عمر میں بالی وڈ کے لیے ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ گا کر وہ شہرت سمیٹی جس کے لیے پیرانہ سالی بھی کم پڑ جائے۔ ایک دنیا کو اس کا دیوانہ ہونے میں بہت کم عرصہ لگا۔ انتہائی پڑھی لکھی، سنجیدہ، دلکش اور دھان پان سی لڑکی میں بس ایک ’خامی‘ تھی کہ وہ بہت جلدی میں تھی، شاید وہ جانتی تھی کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔
نازیہ حسن تین اپریل 1965 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، تاہم وہ پلی بڑھیں لندن میں۔ ان کے بچپن میں ہی خاندان وہاں منتقل ہو گیا تھا۔
کراچی آنا جانا لگا رہتا۔ دس سال کی عمر میں سہیل رعنا کے پروگرام ’کلیوں کی مالا‘ میں شرکت کی اور بچوں کے لیے گانے گائے۔ لندن میں سکول کے پروگرامز میں گاتی رہیں۔ 70 کی دہائی کے اواخر میں ان کی شہرت لندن بھر میں پھیل چکی تھی، جس پر معروف موسیقار بِڈو نے ان سے رابطہ کیا اور یوں پہلا البم ’ڈسکو دیوانے‘ وہیں پر ریکارڈ ہوا جس نے آدھے ایشیا کو اپنے سحر میں لے لیا کیونکہ اس میں انگریزی، اردو، ہندی، کلاسک، ڈسکو اور پاپ سب کی جھلک تھی۔
انہی دنوں انڈین اداکار و ہدایت کار فیروز خان ’قربانی‘ نامی فلم بنا رہے تھے جس کے لیے انہیں ایسی الگ آواز کی تلاش تھی جو صرف نازیہ حسن کی تھی، ان سے رابطہ کیا گیا اس وقت ان کی عمر صرف پندرہ سال تھی، وہی گانا فلم کے ہٹ ہونے کا باعث بنا اور یوں ان پر شہرت کی دیوی مزید مہربان ہو گئی۔

پاکستان میں بھی نازیہ اور زوہیب حسن کے گانوں کو بہت پسند کیا گیا۔ فوٹو بشکریہ زوہیب حسن آفیشل

پاکستان میں بھی نازیہ اور زوہیب حسن کے گانوں کو بہت پسند کیا گیا، وہ ابھی لندن میں تھے کہ گلی گلی گھر گھر ان کے گانے چل رہے تھے۔ عوام کی جانب سے فرمائش پر ٹی وی اور ریڈیو نے بھی ان کے گانے چلانا شروع کیے۔

نازیہ اور زوہیب نے پاکستان میں پاپ گلوکاری کی بنیاد رکھی، ڈسکو دیوانے کے علاوہ بوم بوم، ینگ ترنگ، ہاٹ لائن اور کیمرہ بھی ان کے البم ہیں۔ ان کے گانے پاکستان اور انڈیا ہی نہیں امریکا برطانیہ اور روس کے میوزک چارٹس میں بھی ٹاپ پر رہے۔

صدر ضیا کی جانب سے پابندی

سنہ 80 کے اوائل میں جب ہر طرف ’ڈسکو دیوانے‘ کی گونج تھی، دھڑا دھڑا کیسٹس فروخت ہو رہی تھیں، ریڈیو ٹی وی ان کے گانے چلا رہے تھے، سب ہی ان کو پسند کر رہے تھے، آدھا ایشیا ان کا دیوانہ ہو رہا تھا لیکن پھر اچانک میڈیا جو اس وقت صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر مشتمل تھا، نے ان کا ’بلیک آئوٹ‘ کر دیا۔
یہ وہ دور تھا جب نیوز کاسٹر اور انائونسر کے سر سے ڈوپٹہ سرکنے کو ’جرم‘ گردانا جاتا تھا، اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق عالمگیر اور محمد علی شہکی جیسے گلوکاروں کو تبھی گانے کی اجازت تھی جب مناسب لباس پہنا ہو، ایسے میں ٹین ایجرز، وہ بھی بہن بھائی، پنٹ شرٹ پہنے اور گانے گاتے ہوئے جب صدر کی شوریٰ کے ایک رکن کی نگاہ میں آئے تو یہ کہتے ہوئے صدر ضیا کو شکایت کر دی کہ یہ مشرقی و مذہبی اقدار کے خلاف ہے جس کے بعد پی ٹی وی اور ریڈیو کو پابندی کے احکامات جاری ہوئے۔
اس کا اثر موسیقی کے دوسرے پروگراموں پر بھی پڑا کیونکہ فنکاروں کے لیے پروموشن کا سب سے بڑے ذرائع یہ دو پلیٹ فارمز ہی تھے۔ جس پر نازیہ زوہیب کے والدین کئی دنوں تک اس وقت کے وزیر اطلاعات راجہ ظفرالحق سے ملنے کی تگ و دو میں رہے اور شاید ملے بھی۔ اس کے بعد صدر ضیاالحق نے نازیہ زوہیب کو ایوان صدر طلب  کیا، دونوں اسلام آباد میں پی ٹی وی نیوز کے کیمروں کے سامنے ان سے ملے اور صدر نے انہیں لیکچر دیا کہ ’پاکستانی اور مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘ اس کے کچھ عرصہ بعد ان پر سے پابندی اٹھا دی گئی۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت میں شعیب منصور کا شو میوزک 89 پی ٹی وی پر پیش کیا گیا جس کی میزبانی نازیہ اور زوہیب حسن نے کی۔ فوٹو بشکریہ زوہیب حسن آفیشل

جس کے بعد انہوں نے گایا اور خوب گایا، پی ٹی وی کا کوئی بھی موسیقی کا پروگرام اور شو ان کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں پاتا تھا، اس دوران حالات بھی بدلتے رہے اور صدر ضیا کے بعد زمام حکومت پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آئی اور ٹی وی پالیسی کچھ مزید ماڈرن ہوئی۔

میوزک 89 ایک اور ایشو

بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں شعیب منصور کا شو میوزک 89 پی ٹی وی پر پیش کیا گیا جس کی میزبانی نازیہ حسن اور زوہیب حسن نے کی، یہ ماضی کے شوز سے کچھ مختلف تھا، اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، وائٹل سائنز کے علاوہ دیگر پاپ سنگرز نے بھی پرفارم کیا اور نازیہ حسن و زوہیب حسن نے بھی گانے گئے، جس رات یہ شو نشر ہوا اس سے اگلی صبح دائیں بازو کے کچھ ’بازو‘ یہ بحث کرتے پائے گئے کہ مشرقی اقدار کو روند ڈالا گیا، ایسے شوز بند ہونے چاہئیں، یہاں تک کہ ایک مذہبی جماعت نے اس کے خلاف احتجاج بھی کر ڈالا، مذمت ہوتی رہی، کافی روز تک اس کا اثر رہا اور لگا کہ ان پر پھر پابندی لگ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ازدواجی زندگی اور وفات

نازیہ حسن کا سفر جاری تھا، اس دوران 1991 میں اقوام متحدہ نے انہیں ثقافتی سفیر بھی مقرر کیا، وہ پاکستان کا ایک سافٹ چہرہ تھیں، 1995 میں ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی جو زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوئی۔  نازیہ کو پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ 1997 میں انہوں نے بیٹے کو جنم دیا جن کا نام عریض حسن ہے۔
مزید
پڑھیں

 

انہوں نے کینسر کے خلاف جنگ لڑی اور بالآخر آج ہی کے روز سنہ 2000 میں صرف 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
زوہیب حسن نے ان کی وفات کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’چونکہ ہم گاتے تھے اس لیے کچھ لوگوں کا ہتک آمیز رویہ بھی سامنے آتا وہ حوصلہ شکنی کرتے تھے مگر نازیہ چونکہ مجھ سے بڑی تھیں اور بلا کی خوداعتماد تھیں وہ ڈٹ جاتیں اور میری ڈھال بن جاتیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نازیہ کی بیماری کے ایام کبھی نہیں بھول سکتا، دو سال تک ان کے ساتھ ہسپتال میں رہا، میں نے سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے کمزور سے کمزور تر ہوتی گئیں اور پھر سب کو چھوڑ گئیں‘ ساتھ ہی الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔
کاش وہ اتنی جلد باز نہ ہوتی!!

شیئر:

متعلقہ خبریں