Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ای گورننس کی شفافیت افسر شاہی کو پسند نہیں'

ای گورننس وہ نظام ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تشکیل دیا جاتا ہے۔ فوٹو: pixabay
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں کی فائل فلاں سرکاری ادارے کے کسی افسر کے پاس پڑی ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔
فلاں فائل کو سرکاری دفتر کی گرد کھا گئی اور سائل دفتر کے چکر لگاتے لگاتے دنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہی فائل سسٹم حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ 
اسی وجہ سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ای گورننس یا ای آفس کا نظام لانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ 
ای آفس یا ای گورننس وہ نظام ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ 
اس نظام میں کاغذ کے بجائے کمپیوٹر میں موجود مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے سرکاری اداروں کے درمیان خط و کتابت، فائلوں کی ترسیل و وصولی اور ان کے سٹیٹس کے بارے میں معلومات عوامی رسائی میں دستیاب ہوتی ہیں۔ 
تمام سٹیک ہولڈرز نہ صرف اس سے آگاہ رہتے ہیں بلکہ نوٹیفیکیشن اور ٹائم فریم کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے حصے کا کام کرکے بروقت آگاہ نہ کرنے والا سب کی نظروں میں بھی آ جاتا ہے۔ 
'ای گورنینس حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کو نئی جہت دے گی کیونکہ اس سے حکومتی امور میں شفافیت آئے گی۔'
یہ الفاظ 4 نومبر 2002 کو اس وقت کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمان نے وفاقی حکومت کے تمام امور کو فائلوں سے نکال کر کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے سلسلے میں قائم ’الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔
جبکہ یہ آئیڈیا انھوں نے 2000 میں ملک کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کو حکومتی اصلاحات کے سلسلے میں دیا تھا جس پر دو سال بعد عملدرآمد کا آغاز ہوا لیکن 17 برس گزر جانے کے باوجود ای گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

'پاکستان میں ای گورننس کے ڈیزائن میں ہی خامیاں ہیں۔‘ فوٹو: اے ایف پی

کچھ اسی طرح کے دعوے 2017 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ’ڈیجیٹل پاکستان پالیسی‘ میں کیے تھے کہ سرکاری امور کو شفاف، کرپشن فری بنانے اور عوام کے سامنے جواب دہ اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ہر ادارے کو ڈیجیٹل کر دیا جائے گا۔
لیکن عملاً صورتحال کچھ مثالی نہیں رہی اور یہ اعلانات کرنے والوں میں سے کئی افراد کو اب خود کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے۔ 
اسی طرح کے احکامات اب وزیر اعظم عمران خان کے آفس سے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو بھی جاری ہوئے ہیں۔ جس کے بعد جن وزارتوں میں سابق دور حکومت میں ای آفس کا نظام متعارف کروایا گیا تھا تھا اسے فعال بنایا جا رہا ہے۔ 
نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو خودمختار ادارہ بنا کر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس کی تشکیل نو کر دی گئی ہے جبکہ شباحت علی شاہ کو اس کا نیا ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شباحت شاہ نے انکشاف کیا کہ اس وقت وفاقی حکومت کے 30 سے 40 فیصد اداروں کے پاس کمپیوٹر ہی نہیں ہیں اور جن 60 سے 70 فیصد کے پاس کمپیوٹر ہیں ان کے پاس ای آفس کے لیے قابل استعمال ڈیجیٹل انفراسٹرکچر نہیں ہے۔
ان کے بقول ای 'ای گورننس کے لیے سب سے پہلے تو تمام سرکاری اداروں کو کمپیوٹر مہیا کرنا ہوں گے اور اس کے بعد قابل استعمال اور قابل اعتماد انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں ای افس سافٹ وئیر کی ٹریننگ ہوگی اور تیسرے مرحلے میں جا کر سرکاری اور حکومتی امور کے لیے ڈیجیٹل آپریشن شروع کیا جا سکتا ہے۔' 
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں ای آفس منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کر چکے ہیں تقریبا آدھی وزارتوں میں اندرونی خط و کتابت اور روابط کا میڈیم لانچ کر دیا گیا ہے۔ 
'جن وزارتوں میں ای آفس کا نظام متعارف نہیں کروایا گیا ان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اس نظام کو یقینی بنائیں۔ سرکاری ملازمین کو سافٹ وئیر کے استعمال کی ٹریننگ بھی دے رہے ہیں جبکہ پرانے سافٹ وئیرز کو اپ گریڈ بھی کر رہے ہیں۔'
شباحت شاہ نے مزید بتایا کہ ای آفس کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں اس لیے اتنا عرصہ لگا کہ کوئی ادارہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں تھا۔ 
'کبھی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوا۔ کبھی کسی نے ای گورننس کو اپنایا نہیں، ہر کوئی دوسرے کی طرف دیکھتا رہا۔ اپنے ادارے کو اسی لیے خودمختار بنوا کر آرڈینینس جاری کروایا کہ ہم اس منصوبے کو اونرشپ دے سکیں۔'
اس سوال پر کہ وفاقی حکومت کی تمام وزارتوں، ڈویژنز اور ملحقہ اداروں میں ای آفس کا نظام نافذ کرنے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے تو ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ اس کے دو مرحلے ہیں۔ ایک مرحلہ ڈیجیٹل آٹومیشن کا ہے جبکہ دوسرا ای گورننس کا ہے۔ 
'ڈیجیٹل آٹو میشن کا نظام تو 2020 یعنی اگلے سال کے آخر تک آجائے گا لیکن ای گورننس کو سمجھنے، چلانے اور اس پر مکمل انحصار میں کچھ وقت مزید لگ سکتا ہے۔' 
دنیا میں ایک طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نت نئے نظام تشکیل پا رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں جدت آ رہی ہے لیکن ہمارے حکومتی ڈھانچے کو ڈیجیٹل ہونے میں ہی کافی عرصہ لگ رہا ہے۔ 
اس حوالے سے آئی ٹی ماہر عامر عطاء نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے ڈیجیٹل نظام دیکھنے میں بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد بہت مشکل ہوتا ہے۔ 
'پاکستان کے سرکاری نظام کو سامنے رکھا جائے تو ای آفس یا ای گورننس کے ڈیزائن میں ہی خامیاں ہیں۔ یعنی جس انداز سے ہمارے ادارے کام کرتے ہیں اور ان کے رولز آف بزنس ہیں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اس طرح کا سافٹ ویئر بنانا ہی مسئلہ ہے۔' 
انھوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے ادارے جو ڈیجیٹل ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ بھی ’خانہ پری‘ ہے۔ 
'اس نظام کا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے ای آفس کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ بے کار ہے کیونکہ اس میں عوامی خدمت اور سروس ڈیلیوری کا وہ آپشن ہی نہیں جو باقی دنیا میں رائج ہے اور مانیٹرنگ کا وہ نظام ہی نہیں جو دوسری جگہوں پر ہے۔' 
عامر عطاء نے مزید کہا کہ انہیں امید نہیں کہ گورننس کے موجودہ نظام کے ساتھ ای آفس کا نظام چلے کیونکہ ای آفس میں کافی حد تک شفافیت آ جاتی ہے جو شاید ہماری افسر شاہی کو پسند نہیں۔'
یاد رہے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمان کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کی سرپرستی میں ہی مسلم لیگ ق کی حکومت آئی تو اویس لغاری وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی بنے۔ ان کی سربراہی میں الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ کام کرتا رہا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا دور بھی گزرا لیکن ای آفس کا نظام رائج نہ ہوسکا۔ 
انوشہ رحمان جب وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھیں تو آئے روز ای آفس اور گورننس کی باتیں کرتی تھیں اور ہر دوسرے دن ای آفس متعارف کروانے کی ہدایات جاری کرتی تھیں۔ وزیر اعظم آفس سمیت مختلف اداروں میں ای آفس کا نظام انہی کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا۔  
مسلم لیگ ن نے انوشہ رحمان کی تجویز پر ہی 2014 میں 'پاکستان کمپیوٹر بیورو' اور 'الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ' کو ضم کرکے 'نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ' (این آئی ٹی بی) تشکیل دیا تھا۔ 
انوشہ رحمان نے اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم کابینہ کمیٹی برائے تعمیر نو (CCoR) کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کمپیوٹر بیورو 1971 سے قائم ہے جس نے 49 منصوبے شروع کیے لیکن سوائے چند ایک کے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکا اور ادارے میں مالی بے ضابطگیاں بھی پائی گئی ہیں۔ اسی طرح الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

شیئر: