Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے ’نئے پاکستان‘ نے کیا دیا؟

جذبات اوربے چینی کی ملی جلی کیفیت، پسینے سے چمکتا چہرہ، الجھا لباس اوربال۔ یہ وہ حالات تھے جن میں عمران خان نے گذشتہ سال 25 جولائی کو انتخابات جیتنے کے بعد قوم سے خطاب کیا تھا۔
ان کی اس افتتاحی تقریر میں غریبوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا ذکر تھا، ٹیکس اصلاحات اور بچت کے منصوبے تھے، قومی یکجہتی اور امن کے دعوے تھے، اپوزیشن سےانتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات میں تعاون اور پڑوسی ملکوں بشمول انڈیا کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے ایک کے مقابلے میں دو قدم بڑھانے کے وعدے اور دوست ممالک جیسے کہ سعودی عرب اور ایران کے اندرونی و علاقائی مسائل کے حل میں مدد کے لیے فراغ دلانہ پیشکشوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز جیسے محلات میں اعلیٰ پیمانے کی یونیورسٹیاں بنانے کے ارادے تھے۔
 اس تقریرکا ختم ہونا تھا کہ حامیوں اور مخالفین کی جانب سے اس کی یکساں پذیرائی کی گئی۔
حامی توایک طرف، مخالفین نے بھی کہا کہ اگر عمران خان اپنی تمام باتوں پر عمل کرجاتے ہیں تو پاکستان کے لیے اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
لیکن جب عمران خان یہ تاریخ ساز خطاب کر رہے تھے، اس وقت بھی جو لوگ حالات سے آگاہ تھے، ان کو یہ فکر درپیش تھی کہ عمران خان کو بہت جلد ماضی میں کیے گیے ایسے ہی لمبے چوڑے کئی دعوؤں سے یو ٹرن لینا پڑے گا کیونکہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت موجود نہیں تھی، اورانہیں اس مقصد کے لیے ان تمام جماعتوں میں سے کسی ایک یا زائد کے ساتھ اتحاد بنانا پڑے گا جن کو وہ ماضی میں چور، ڈاکو اور قاتل کہتے رہے ہیں۔
جب حکومت سازی شروع ہوئی تو یہی ہوا۔ جس جماعت پر عمران خان نے اپنے بائیس سالہ سیاسی کیرئیر میں سب سے ذیادہ تنقید کی تھی اور اس کو قاتل اور ملک دشمن قرار دیا تھا، اس کو انہیں اپنا سب سے بڑا اتحادی بنانا پڑا۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی مدد کے بغیر وہ حکومت بنانے سے قاصر تھے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ انہیں مسلم لیگ قائداعظم، جس کے رہنماؤں کو ماضی میں وہ سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے تھے، کو بھی شریک اقتدار کرنا پڑا۔   

کابینہ کے انتخاب کا معاملہ آیا تو عمران خان کو اتحادیوں اور بااثر حلقوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے (فوٹو:پی آئی ڈی)

عمران خان نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو ان کے سپورٹرز کو یقین تھا کہ باقاعدہ طور پراقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا پہلا اعلان کرپشن کا قلع قمع ہو گا اور وہ اگلے ہی روز سے رشوت لینے والے ہر چھوٹے بڑے سرکاری افسر اور مہنگائی کرنے والے منافع خوروں کے خلاف فی الفور سخت کاروائی کا حکم دیں گے۔ معیشت سے آگاہی رکھنے والے کچھ حلقے یہ توقع بھی کررہے تھے کہ وہ ذرمبادلہ کی بچت کے لیے فوری طور پر سامان پرتعیش کی درآمد پر بھی مکمل پابندی لگا دیں گے۔
لیکن عمران خان نے معیشت کی مضبوطی اور سرکاری خزانے کی بچت کے لیے جو پہلے اقدامات اٹھائے وہ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی تھی جس سے قومی خزانے میں ایک محدود رقم کا اضافہ تو ضرور ہوا لیکن ان اقدامات سے اپوزیشن، جو عمران خان کے افتتاحی خطابات کے بعد مبہوت سی ہو گئی تھی، جاگ گئی اور ان کی نوخیز حکومت کو ابتدا سے ہی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔  
بس وہ دن تھا کہ جو یکجہتی ملک میں بنتی نظر آ رہی تھی، وہ ہوا ہو گئی۔
کابینہ کے انتخاب کا معاملہ آیا تو خان صاحب کو اتحادیوں اور بااثر حلقوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ہراس شخص کو وزیر بنا دیا گیا جو ماضی کی ان حکومتوں میں شامل تھا جن کی کارکردگی کے عمران خان شدید ناقد تھے۔ کابینہ میں پی ٹی آئی کا نمایاں چہرہ محض اسد عمر تھے جن کو عمران خان اپنا اوپننگ بیٹسمین بھی قرار دیتے تھے۔
توقعات تھیں کہ اوپننگ بیٹسمین نے نیٹ پریکٹس کے دوران معیشت جیسےسخت حریف کو قابو کرنے کے لیے مہارت حاصل کر لی ہوگی اور میدان میں آتے ہی چوکوں اور چھکوں کی بھرمار کر دے گا۔ لیکن اسد عمر نے وہ ٹک ٹک شروع کی کہ کئ ماہ تک اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ وکٹ کے کس طرف کھیل رہے ہیں۔  
معیشت کو گرداب سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کی بحث عروج پر تھی، کپتان اور ان کے اوپننگ بیٹسمین دونوں عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کر رہے تھے اور ملک کو درکار وسائل کے بندوبست کے لیے دوست ممالک کے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے۔ عمران خان کی بنائی گئی مثالی اقتصادی مشاورتی کونسل کے اراکین کی رائے اس موضوع پر منقسم تھی، ابھی حکومت اس اہم معاملے سے نمٹنے کی تدابیر ہی کر رہی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کو بنیاد پرستوں کے پراپیگنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اوراس مشاورتی کونسل کے اہم ترین رکن عاطف میاں، جن کا تعلق احمدی مذہب سے تھا، کووہ ہٹانے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی سطح پر بھی پاکستان کے خلاف مذہبی آزادیوں کے حوالے سے نئی تنقید کا آغاز ہو گیا۔
 بہت دیر بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا گیا اور جب اسد عمر عالمی ادارے سے مذاکرات کے بعد امریکہ سے وطن واپس لوٹے تو ان کو کابینہ سے نکال دیا گیا کیونکہ بعض حلقوں کے مطابق وہ اس قرضے کی سخت شرائط ماننے سے انکاری تھے۔ جبکہ کچھ دیگر کے خیال میں ان کی برخواستگی کی وجہ قرضے ملنے میں تاخیر تھی۔
 دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے تقریبا 12 ارب ڈالر کے قرضوں کے معاہدوں کے بعد وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کا چارج عالمی مالیاتی اداروں کے سابقہ ملازمین کے ہی حوالے کر دیا گیا، جس سے اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کا ایک بار پھر بھرپور موقع ملا۔ 
اس کے بعد مثالی ٹیکس اصلاحات تو کی گئیں لیکن معاشی فیصلوں میں تاخیر سے روپے اور سٹاک ایکسچینج کی گراوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک نہیں تھما اور اس کی وجہ سے ہر روز بڑھنے والی مہنگائی سے عوام بھی تنگ آ گئے۔

سٹاک ایکسچینج کی گراوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک نہیں تھما (فائل فوٹو:اے ایف پی)

دیر سے ہی سہی، ملک میں کچھ معاشی ٹھہراؤ آیا تو کرپشن کیسز میں اپوزیشن رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور اس وقت حزب اختلاف کی تقریباً تمام مرکزی قیادت جیلوں میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی میڈیا پر بھی لاثانی قدغنیں لگنا شروع ہو گئیں اور اس وقت سینسرشپ کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے جسکی وجہ سے غیرروائتی میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے کی جانے والی ٹیکس اصلاحات، جن کے تحت ماہانہ پچاس ہزار روپے سے زائد آمدن والے ہر شہری کو رجسٹرڈ ہونا پڑے گا، سے ملکی ریونیو میں اضافہ ہو گا، لیکن معیشت کو مکمل طور پر کھڑا کرنے کے لیے پاکستانی عوام کو اگلے دو سال مزید مالی مشکلات سے گزرنا پڑے گا، جس کے بارے میں عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد تنبہیہ کر دی تھی۔
تبصرہ نگار خارجہ میدان میں بھی حکومتی کارکردگی کو سراہتے ہیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، روس، ملایئشیا اورقطر جیسے ممالک سے تعلقات کی از سرنو تشکیل کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں، لیکن سی پیک میں سست روی سے چین کی بد دلی اور ترکی کی پاکستان کی طرف گرمجوشی میں بوجوہ کمی اس میدان میں بھی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی میں بہتری کی متقاضی ہے۔ 
ماہرین کے مطابق عمران خان حکومت کی سب سے بڑی کامیابی فوج کے ساتھ کامیاب شراکت داری ہے اور وزیراعظم اور آرمی چیف کا ایک پیج پر ہونا ملکی معاملات میں بہتری کا ضامن ہے۔ تاہم نومبرکے مہینے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاویدباجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے نے اس شراکت داری پربھی سیاہ سائے ڈالے ہوئے ہیں اور اس چیلنج سے کامیابی سے نمٹنا عمران خان کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بھی عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے (فوٹو: وزیراعظم ہاؤس)

حال ہی میں انڈیا کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کر کے اس کو انڈین یونین کا علاقہ بنانے سے بھی عمران خان حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے نہ صرف یہ کہ انہیں ایک نئی سفارتی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے بلکہ کنٹرول لائن پر بھی ایک مکمل روائتی فوجی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ یہ کشیدگی بھی عمران خان کے طے کردہ اہداف کے حصول میں رکاوٹ ڈالے گی۔
عمران خان نے اپنے اہداف کے حصول کے لیے متعدد ٹاسک فورسزبنائی تھیں جن میں سول سروسز ریفارمز، ری سٹرکچرنگ، بچت، احتساب، صحت، سیاحت، ماحولیات، گھروں کی تعمیر اور کھیلوں کے شعبوں کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورسز نمایاں ہیں۔ لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کسی بھی کمیٹی نے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا۔
تاہم عمران خاان کے شروع کیے گیے چند بڑے منصوبے جن میں ’پاکستان سیٹیزن پورٹل‘، ’ہیلتھ کارڈ‘، ’احساس پروگرام‘ اور ’نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم‘ شامل ہیں، میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔
بالخصوص پاکستان سیٹیزن پورٹل پر کی جانیوالی شکایات کے ازالے کے حوالے سے مثبت عوامی رد عمل پایا جاتا ہے اور اطلاعات کے مطابق اس ایپلی کیشن کے ذریعے کی جانیوالی بیشترشکایات کا حل کم سے کم وقت میں مہیا کر دیا جاتا ہے۔
حکومتی حلقے احساس پروگرام کو بھی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اس کے تحت غریبوں، خاص کر غریب خواتین کے لیے شروع کیے گیے خوراک، صحت، تعلیم، روزگار اور رہائش کی لازمی فراہمی کے منصوبوں کو گیم چینجرکا درجہ دیتے ہیں۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی مستعار لی گئی ایک شکل ہے۔

پاکستان سیٹیزن پورٹل پر کی جانیوالی شکایات کے ازالے کے حوالے سے مثبت عوامی رد عمل پایا جاتا ہے (فوٹو:ٹوئٹر)

سیاسیات کے ماہر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اگرچہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں اور مشکل فیصلوں کے باعث مثبت اعشارئیے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور نئے مالی سال کے پہلے ماہ جولائی میں درآمدات میں ستائیس فیصد یعنی ساڑھے چھ ارب ڈالر کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ ٹیکس دہندگان میں دس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے اثرات عوام تک فوری طور پر منتقل نہیں ہوئے۔ 
ان کے مطابق مقامی حکومتوں کا آغاز نہ ہونا اور عوام کو نچلی سطح پر مقامی افسر شاہی کی بد عنوانیوں سے نجات نہ دلوا پانا اور پولیس کو اثرورسوخ سے آزاد نہ کروا پانا اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔
 تاہم یہ بات واضح ہے کہ حکومت کی کارکردگی جاننے کے لیے ایک سال کا عرصہ کافی نہیں ہے۔ اگر ہمیں عمران خان کے ویژن پر عملدرآمد کا جائزہ لینا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کا انتظار کریں اور اس کے بعد دیکھیں کہ ان کے ’نئے پاکستان‘ کے فلسفے نے ہمیں کیا دیا ہے، اور ہم سے کیا چھینا ہے۔

شیئر: