Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودیہ اور امارات کے تعلقات کی ’انفرادیت‘

دونوں ملکوں نے یمن سے متعلق اختلاف طے کر لیا ۔
اختلاف کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو اچھا نہیں ہوتا۔البتہ کبھی کبھی تعلق کو جانچنے اور مضبوط بنانے میں کارکر ثابت ہوتا ہے۔ یہ اصول جنوبی یمن میں اہل یمن کے باہمی تنازع سے نمٹنے کے منظر نامے پر بھی صادق آتا ہے۔
 الشرق الاوسط میں عبدالرحمان الراشد نے اپنے کالم میں لکھا کہ اس سے سعودی اماراتی تعلقات کو فائدہ ہو گا۔ یہ خطے کے ممالک کے درمیان علاقائی تعلقات کے سلسلے میں قابل تقلید مثال بنے گا۔
خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات تنازعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم سب افراد اور حکومتوں کی سطح پر اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کوئی بھی تعلق اختلاف سے خالی نہیں ہوتا۔ زیادہ سمجھدار حکومتیں اختلاف کو اس کے فریم میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اختلاف کو ختم بھی کرتی ہوں ۔

سعودی عرب اور امار ات کے نئے تعلقات دیگر ممالک کے مقابلے میں ہر سطح پر منفرد ہیں ۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے ایک عرصے سے لٹکے ہوئے مسائل حل کر کے حکمت اور فراست کا مظاہرہ کیا ۔ دونوں ملکوں نے یمن سے متعلق اختلاف طے کر لیا ۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ میری اس سوچ پر قطر کے حوالے سے اعتراض کریں گے ۔ اس حوالے سے انفرادی مباحثے بھی کئے ہیں اور بڑی مضبوط دلیلیں بھی سنی ہیں ۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ سعودی، اماراتی اور قطری اختلاف کا تکونا ایک دوسرے ملتا جلتا ہے ۔
ان کا یہ کہناکسی طرح صحیح نہیں ۔وجہ یہ ہے کہ قطر کے ساتھ اختلاف ربع صدی پرانا ہے ۔ 20 دنپہلے کا نہیں ۔ اس کی شروعات 1994ءمیں اس وقت ہوئی جب شیخ حمد بن خلیفہ برسرِ اقتدار آئے۔ انہوں نے سعودی عرب اور پھر امارات سے متعلق اپنے والد کی پالیسی تبدیل کی ۔ ان کا نقطہ نظر اپنے والد سے مختلف تھا ۔بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ قطر نے اس کے بعد سعودی عرب اور امارات کے حکمرانوں کے خلاف سرگرم پالیسی اپنائی ۔مصالحت پر مصالحت اور معاہدے پر معاہدے ہوتے رہے ۔ 
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک سے لیکر امیر کویت شیخ صباح الاحمد تک نے ثالثی کے فرائض انجام دیئے ۔ ساری مساعی ناکام ثابت ہوئیں ۔قطر اپنے پڑوسیوں خصوصاً بحرین اور سعودی عرب کے امن کو متزلزل کرنے کے درپے رہا ۔
عرب دنیا کے بعض سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سارے مسائل کو ایک تھیلے میں رکھ دیتے ہیں ۔ٹی وی پروگرام یا سیاسی بیان پر سارے تعلقات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں ۔قطر کے ساتھ اصل اختلاف الجزیرہ چینل پر کبھی نہیں ہوا ۔ عراق کا سوشلسٹ میڈیا سعودی عرب کے خلاف زیادہ سرگرم رہا لیکن اس کے باوجود گزشتہ صدی کے 7ویں عشرے میں دونوں ملکوں میں سے کسی نے تعلقات منقطع نہیں کئے ۔

دونوں ملک کئی امور پر ایک دوسرے سے سیاسی تعاون کر رہے ہیں ۔

سعودی عرب اور امار ات کے نئے تعلقات دیگر ممالک کے مقابلے میں ہر سطح پر منفرد ہیں ۔ دونوں ملک ہر محاذ پر ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر چل رہے ہیں ۔ دونوں ملک ایران ، قرن افریقی ، شمالی افریقہ ، عراق اور ترکی کے امور پر ایک دوسرے سے سیاسی تعاون کر رہے ہیں ۔
مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات نیز پاکستان ، انڈیا ، چین اور روس کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں بھی دونوں ایک دوسرے کے سنگ چل رہے ہیں ۔دونوں جتنی زیادہ اور جتنے پیمانے پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کئے ہوئے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دونوں ممالک دیگر حکومتوں کےساتھ تعاون کے سلسلے میں کچھ کم رغبت رکھتے ہوں ۔ اس کا باعث صرف یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاستداں مثبت انداز میں تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کئے ہوئے ہیں ۔
ہماری آرزو تھی کہ ایسا ہی باغی ریاست قطر کے ساتھ بھی ہوتا ۔اگر ایسا ہوتا تو قطر زیادہ طاقتور اور زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ۔افسوس کہ قطر اس ربط و ضبط کا حصہ نہیں بنا۔قطر کے بائیکاٹ کا باعث یمن کے بحران پر سیاسی اختلاف کبھی نہیں بنا۔قطر کے ساتھ بائیکاٹ کا باعث یہ بھی نہیں کہ مصر کے حکمراں کون ہوں ۔یہ الگ بات ہے کہ یہ سارے مسائل بیحد اہم ہیں۔قطر کے ساتھ بائیکاٹ کی اصل وجہ ریاست کی بقا اور امن و استحکام پر اختلاف ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں​

شیئر: