یمن کے حوثی باغیوں نے چند ہی دنوں میں بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنانے کی تازہ پرتشدد مہم شروع کی ہے اور دو جہازوں کو تباہ کیا ہے اور عملے کے کچھ افراد کو بھی ہلاک کیا ہے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ حملے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران جہاز رانی کے خلاف باغیوں کی مہم کے تازہ ترین باب کی نمائندگی کرتے ہیں۔
باغیوں کی برسوں پر محیط لڑائی
حوثی اسلام کے اقلیتی شیعہ زیدی فرقے کے رکن ہیں جنہوں نے یمن پر 1962 تک ایک ہزار سال حکومت کی۔ انہوں نے یمن میں اپنے شمالی گڑھ سے صف آرا ہونے اور 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے سے پہلے کئی برسوں تک یمن کی مرکزی حکومت کے خلاف جنگ کی۔ سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد نے 2015 میں یمن کی جلاوطن اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار میں بحال کرنے کے لیے مداخلت کی۔
مزید پڑھیں
-
امریکی افواج کے یمن میں حوثی عسکریت پسندوں پر حملے، 31 ہلاکNode ID: 887226
-
یمن کے حوثی باغیوں کا امریکہ پر ’تازہ حملوں‘ کا الزامNode ID: 889211
سعودی زیرقیادت اتحاد کے خلاف برسوں کی خونریز اور غیر نتیجہ خیز لڑائی سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ میں بدل گئی جس سے عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن میں بڑے پیمانے پر بھوک اور بدحالی پھیل گئی۔ جنگ نے جنگجوؤں اور عام شہریوں سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے اور دنیا کی بدترین انسانی آفات میں سے ایک کو جنم دیا ہے جس سے ہزاروں افراد مزید ہلاک ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2022 میں تکنیکی طور پر ختم ہونے والی جنگ بندی اب بھی جاری ہے۔ سعودی عرب اور باغیوں نے کچھ قیدیوں کے تبادلے کیے ہیں۔ ایک حوثی وفد کو ستمبر 2023 میں ریاض میں اعلیٰ سطحی امن مذاکرات میں مدعو کیا گیا تھا کیونکہ مملکت کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے۔ اگرچہ انہوں (باغیوں) نے ’مثبت نتائج‘ کی بات کی لیکن ابھی تک کوئی مستقل امن نہیں ہے۔
حوثیوں کی تہران کی طرف سے حمایت اور ان کا اپنا پروفائل
ایران طویل عرصے سے حوثیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ شواہد اور ماہرین کی جانب سے ہتھیاروں کو ایران سے جوڑنے کے باوجود تہران باقاعدہ طور پر باغیوں کو مسلح کرنے کی تردید کرتا ہے۔ کیونکہ تہران اقوام متحدہ کی طرف سے حوثیوں پر ہتھیاروں کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے۔
حوثی اب ایران کے خود ساختہ ’مزاحمت کے محور‘ کے اندر سب سے مضبوط گروپ ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس جیسے دیگر گروپوں کو اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے 12 روزہ جنگ اور امریکہ کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بعد ایران اس سے نکل رہا ہے۔

حوثیوں نے بھی اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے اپنے علاقائی پروفائل میں اضافہ کیا ہے کیونکہ عرب دنیا میں بہت سے لوگ غزہ کی پٹی میں مصائب کے شکار فلسطینیوں کی وجہ سے ناراض ہیں۔
اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران حوثیوں کے جہازوں پر حملے
حوثی علاقے میں تجارتی اور فوجی بحری جہازوں پر میزائل اور ڈرون حملے کر رہے ہیں جسے گروپ کی قیادت نے غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر بیان کیا ہے۔
نومبر 2023 اور دسمبر 2024 کے درمیان حوثیوں نے 100 سے زیادہ تجارتی جہازوں کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا، جس میں دو ڈوب گئے اور چار سیلر ہلاک ہوئے۔ ان کی مہم نے بحیرہ احمر کی راہداری کے ذریعے تجارت کے بہاؤ کو کافی حد تک کم کر دیا ہے جس سے عام طور پر سالانہ ایک کھرب ڈالر کا سامان منتقل ہوتا ہے۔
آخری حوثی حملہ، جس میں تجارتی جہازوں کی حفاظت کرنے والے امریکی جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا، دسمبر کے اوائل میں ہوا تھا۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں جنگ بندی جنوری میں شروع ہوئی اور مارچ تک جاری رہی۔ اس کے بعد امریکہ نے باغیوں کے خلاف ایک وسیع حملہ شروع کیا جو ہفتوں بعد اس وقت ختم ہوا جب ٹرمپ نے کہا کہ باغیوں نے جہازوں پر حملے بند کرنے کا عہد کیا۔
اس کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے کبھی کبھار میزائل حملے جاری رکھے ہیں، لیکن انھوں نے گذشتہ ہفتے کے آخر تک بحری جہازوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ بحیرہ احمر کے ذریعے جہاز رانی اب بھی معمول سے کم ہے، لیکن ان میں حالیہ ہفتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
نئے حملوں سے تشدد اور پیچیدگی میں اضافہ
دو بحری جہازوں میجک سیز اور ایٹرنٹی سی پر حملے حوثیوں کی جانب سے تشدد کی ایک نئی سطح کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ماہرین نے حملوں کو پیچیدہ نوعیت کا قرار دیا ہے جس میں مسلح باغی پہلے بحیرہ احمر میں کشتیوں کی طرف دوڑتے ہوئے چھوٹے ہتھیاروں اور راکٹ سے چلنے والے دستی بموں سے فائرنگ کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جہازوں پر حملہ کرنے کے لیے اینٹی شپ میزائل اور بارود سے لدے فضائی اور سمندری ڈرون دونوں استعمال کیے ہیں۔
اس مربوط حملے نے صرف چند ہی دنوں میں دو جہازوں کو غرق کر دیا، جس سے ڈوبنے والے جہازوں کی تعداد دوگنی ہو گئی۔ یہ خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ ایٹرنٹی سی پر حملہ باغیوں کا سمندر میں سب سے مہلک ہو سکتا ہے کیونکہ عملے کے ارکان لاپتا ہیں۔
یہ حملے اس بات کا اشارہ بھی دیتے ہیں کہ اسرائیلی اور امریکی فضائی حملوں نے باغیوں کی حملے کرنے کی صلاحیت ختم نہیں کی ہے۔
تجارتی جہازوں کے پاس کم دفاعی صلاحیت
حوثیوں کے لیے تجارتی جہازوں پر حملہ کرنا جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے کیونکہ ان جہازوں میں فضائی دفاعی نظام نہیں ہے۔ اس کے بجائے کچھ کے پاس چند مسلح گارڈز ہوتے ہیں جو حملہ آوروں یا قریب آنے والے ڈرون پر گولی چلا سکتے ہیں۔ ڈرون کو گرانا مشکل ہے اور میزائل کو مار گرانا ان ہتھیاروں سے ناممکن ہے۔
مسلح گارڈز بھی عام طور پر قزاقی سے نمٹنے کے لیے زیادہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور چھوٹی کشتیوں کے قریب پہنچنے پر فائر ہوز سپرے کرتے ہیں یا حملہ آوروں کو جہاز پر چڑھنے سے روکنے کے لیے سائکلون تار استعمال کرتے ہیں۔ تاہم حوثیوں کے پاس ہیلی کاپٹر کے ذریعے حملے کرنے کا تجربہ ہے اور وہ ممکنہ طور پر نجی سکیورٹی کو زیر کر سکتے ہیں جو اکثر تجارتی جہاز پر صرف تین رکنی ٹیم ہوتی ہے۔
دوبارہ شروع ہونے والے حملوں کے بین الاقوامی اور ملکی محرکات ہیں
حوثیوں کا کہنا ہے کہ نئی حملہ مہم ’غزہ کی حمایت میں کھلی جنگ کے دوران ایک معیاری تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔‘ ان کی ’سبا‘ نیوز ایجنسی نے کہا کہ اسرائیل ’غزہ میں شہریوں کے خلاف روزانہ قتل عام کا ارتکاب کرتا ہے اور اپنی جارحیت کی مالی معاونت اور اپنے محاصرے کو برقرار رکھنے کے لیے سمندری راستوں پر انحصار کرتا ہے۔‘

باغیوں نے کہا کہ ’ان کا موقف مختلف محاذوں پر فلسطینیوں کی حمایت میں مذمت یا بیانات سے آگے براہ راست فوجی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔‘
تاہم باغیوں نے دسمبر کے آخر میں اپنے حملے بند کر دیے تھے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ حوثیوں نے باضابطہ طور پر اپنے حملوں کو معطل کر دیا تھا حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی بندرگاہوں پر جہاز یا کمپنیاں ممکنہ اہداف رہیں گی۔
ہو سکتا ہے کہ باغیوں نے امریکی فضائی حملوں کے بعد اپنی افواج کو دوبارہ تشکیل دیا ہو جس نے انہیں نشانہ بنایا۔ انہوں نے حملوں سے اپنے نقصانات کو تسلیم نہیں کیا ہے، حالانکہ امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے ایک ہزار سے زیادہ اہداف پر دو ہزار سے زیادہ بم گرائے ہیں۔
ماضی میں حوثی تہران کی طرف سے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈے کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں، حالانکہ ماہرین اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ باغیوں کے لیے اہداف چننے میں تہران کا کتنا اثر ہے۔
اندرون ملک حوثیوں کو اپنی حکمرانی پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کا سامنا ہے کیونکہ یمن کی معیشت تباہ حال ہے اور انہوں نے اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور امدادی کارکنوں کو حراست میں لینے کی مہم چلائی ہے۔ اپنے حملوں کو دوبارہ شروع کرنے سے حوثیوں کو اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے ملک میں موجود لوگوں کو دکھانے کے لیے کچھ مل سکتا ہے۔