Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیوں ہوا؟

کیا مرتضیٰ بھٹو زندہ ہوتے تو بے نظیر کی حکومت برطرف کی جا سکتی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک بار پھر ایک چھوٹا ہیلی کاپٹر لاڑکانہ پہنچا، پہلا ہیلی کاپٹر چار اپریل 1979 کو ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی میت لے کر پہنچا تھا۔ دوسرا جولائی 1985 میں بھٹو کے چھوٹے بیٹے شاہنواز کی میت لے کر آیا اور تیسری مرتبہ ہیلی کاپٹر بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضٰی بھٹو کی میت لے کر پہنچا تھا۔ گڑھی خدا بخش میں ہیلی کاپٹر کا اترنا خیر کی خبر نہیں سمجھا جاتا۔
پورا سندھ سوگ، غم وغصے میں ڈوب گیا کیونکہ رات کو مرتضٰی بھٹو کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
مارچ 1981 میں کراچی سے پشاور جانے والا پی آئی اے کا جہاز اغوا ہوا تو لوگوں نے پہلی مرتبہ الذوالفقار کا نام سنا۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اسی سال ستمبر میں لاہور میں پیش آنے والے واقعے میں بھی الذوالفقار کو ملوث قرار دیا، جس میں ذوالفقارعلی بھٹو کو سزا سنانے والے لاہور ہائی کورٹ کے جج مولوی مشتاق زخمی اور چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الہٰی ہلاک ہو گئے تھے۔
مرتضٰی بھٹو نے جلاوطنی کا زیادہ تر وقت افغانستان اور شام میں گزارا۔ 1988 کے عام انتخابات کے بعد بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں تھیں کہ اپنے بھائی کو وطن بلا سکیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی شدید خواہش تھی کہ مرتضٰی بھٹو پاکستان آئیں۔     
 بیگم نصرت بھٹو کا موقف تھا کہ جب غلام مصطفٰی کھر اور اجمل خٹک واپس وطن آ سکتے ہیں تو مرتضٰی کو بھی حق ہے کہ بطور آزاد شہری کے وطن آ کر اپنی زندگی گزارے۔ بینظٰیر بھٹو کا خیال تھا کہ مقتدر قوتیں کسی طور پر مرتضٰی کو نہیں بخشیں گی۔

لندن: چھ اپریل 1979 کو اپنے والد کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

1993 کے عام انتخابات میں لاڑکانہ شہر سے سندھ اسمبلی کی نشست آزاد امیدوار کے طور پر جیتی۔ بیگم بھٹو نے ان کی انتخابی مہم چلائی۔ مرتضیٰ بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا لیکن بینظیر بھٹو ان کی وطن واپسی کے حق میں نہیں تھیں۔ تین نومبر 1993 کو کراچی ایئر پورٹ پہنچتے ہی مرتضٰی بھٹو کو پاکستانی حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا اور لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا۔ مرتضٰی نے مقدمات کا سامنا کیا۔
لانڈھی جیل میں ملاقات کے دوران بیگم بھٹو نے متعدد بار بیٹے سے کہا کہ بینظیر ان سے ملنا چاہتی ہیں لیکن مرتضٰی انکار کرتے رہے۔  
 بالآخر سندھ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کر لی اور وہ جیل سے رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد انہوں نے سندھ اور بلوچستان کے سیاست دانوں دانشوروں، وکلا اور مخلتف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے ملاقاتیں کیں اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے نام سے پارٹی بنالی۔ وہ اپنی ہی بہن کی حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ وہ خاص طور پر اپنے بہنوئی آصف علی زرداری کے پیپلز پارٹی میں رول کے خلاف تھے۔
سندھ بلکہ پیپلزپارٹی کے کارکن بھی چاہتے تھے دونوں بہن بھائی ساتھ ہوں۔   
ذوالفقارعلی بھٹو نے بینظیر کی تربیت سیاسی جانشین کے طور کی تھی۔ بیگم بھٹو چاہتی تھیں کہ بھٹو کی سزائے موت کے بعد وہی پارٹی کی سربراہ کے طور پر رہیں گی۔ نصرت بھٹو ماں تھیں۔ وہ بینظیر اور مرتضٰی کے درمیان توازن رکھنا چاہتی تھیں لیکن جیسے ہی مرتضٰی وطن لوٹے بیگم نصرت کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا اور پارٹی کو از سرنو منظم کیا۔
مرتضٰی بھٹو اپنی پارٹی بنانے لگے تو خیال تھا کہ ان کی پارٹی پیپلزپارٹی کا متبادل بن سکے گی۔
بیگم بھٹو نے کسی طرح سے انہیں بہن سے ملاقات کے لیے راضی کر لیا لیکن مرتضٰی کی شرط تھی کہ یہ ملاقات ایک سیاست دان کی دوسرے سیاست دان سے ملاقات کی طرح ہوگی، یعنی ایجنڈا اور تحریری دعوت نامہ ہوگا۔
بینظیر بھٹو نے اپنے ہاتھ سے خط لکھا کہ وہ ان سے ملکی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنا چاہتی ہیں۔

گڑھی خدابخش میں ہیلی کاپٹر کا اترنا خیر کی خبر نہیں سمجھا جاتا۔ فوٹو: اے ایف پی

 سات سال کے بعد بہن بھائی کی ملاقات 7 جولائی 1996 کو وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں ہوئی۔ بینظیر والہانہ انداز میں بھائی سے گلے ملیں۔ چھ گھنٹے کی اس ملاقات میں بیگم نصرت بھٹو بھی موجود تھیں۔ کچھ دیر کے لیے آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات سے بچھڑے ہوئے بہن بھائی سیاسی طور پر بھی قریب آ رہے تھے۔  
اس ملاقات کے دو ماہ بعد بیس سمتبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو کو ان کی رہائش گاہ ستر کلفٹن کے قریب ان کے چھ ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ 
پولیس کا کہنا تھا کہ وہ صرف مرتضٰی کے گارڈز کو ’غیر مسلح کرنا چاہتی تھی۔ مرتضٰی بھٹو کی گاڑی کو  جانے کی اجازت دے دی تھی۔ لینڈ کروزر گاڑی میں سوار ان کے گن مین نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس میں اے ایس پی صدر، ایس ایچ او کلفٹن اور ٹیکسی میں سوار ایک شخص زخمی ہو گئے۔ مرتضٰی کی گاڑی میں سوار دوسرے گارڈز نے بھی پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی۔ بیس پچیس منٹ کے مقابلے کے بعد صورت حال پر قابو پا لیا گیا۔‘
مرتضٰی بھٹوکو کئی گولیاں لگیں، وہ شدید زخمی تھے۔ رپورٹس کے مطابق  زخمی مرتضٰی ایک گھنٹے تک گاڑی میں تڑپتے رہے، جس کے بعد انہیں قریبی نجی ہسپتال لے جایا گیا۔
مرتضٰی قتل کیس کی تحقیقات سپریم کورٹ کے جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں عدالتی کمیشن اور سکاٹ لینڈ کے جاسوسی ادارے نے بھی کیں لیکن قتل کا معمہ حل نہ ہو سکا۔
تین دسمبر 2009 کو سیشنز کورٹ کراچی نے مرتضٰی بھٹو کے قتل کیس میں شعیب سڈل، واجد درانی، مسعود شریف، رائے طاہر سمیت بیس پولیس اہلکاروں کو بری کر دیا۔
عدالت نے مرتضٰی کے ساتھیوں کو بھی بری کر دیا۔
قتل کے واقعہ کے دو ماہ بعد ایک صحافی کو بینظیر نے بتایا کہ مرتضٰی کے قتل کے بعد ایک وزیراعظم کے سامنے کچھ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے غلط بیانی کی گئی۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل پر سندھ میں جلاؤ گھیراؤ بھی ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

مرتضٰی کی ہلاکت پر تین روز تک سندھ سوگ میں رہا۔ 26 سمتبر کو سندھ کے مختلف شہروں میں مکمل ہڑتال رہی۔ 
مرتضٰی کا قتل بینظٰیر بھٹو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گیا۔ بینظیر کے مخالفین نے یہ کہنا شروع کیا کہ وزیراعظم اپنے بھائی کو نہ بچا سکیں وہ عوام یا کسی دوسرے شہری کا کیا تحفظ کر پائیں گی۔؟
قتل کے تقریباً ایک ماہ بعد صدر فاروق لغاری نے بینظیربھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ مرتضٰی کے قتل کی وجہ سے آنے والےانتخابات میں پیپلز پارٹی کو سندھ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ ’بھٹو کو مارو، بھٹو کو ہی برطرف کرو اور پیپلزپارٹی کو ختم کرو۔‘
پارٹی کے سیکرٹری جنرل شیخ رفیق احمد نے کہا تھا کہ یہ قتل بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کا نہیں بلکہ بینظیر بھٹو کو ختم کرنا کا منصوبہ ہے۔ آخری ملاقات کے بعد بہن بھائی کے تعلقات اچھے ہو گئے تھے۔ یہ ملاقات پیپلزپارٹی اور بنظیر بھٹو کے مخالفین کے لیے ناخوش گوار پیغام تھا۔
معراج محمد خان کا ماننا تھا کہ مرتضٰی کا قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حاصل لامحدود اختیارات کا نتیجہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن اور دانشور ڈاکٹر مبشرحسن جو بعد میں پارٹی سے علیٰحدہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ ’کیا مرتضیٰ کے زندہ ہوتے بینظیر کو ہٹایا جا سکتا تھا؟‘ دو بھٹوز کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ صورت حال مزید مختلف ہوتی اگر بہن بھائی دونوں ایک پیج پر ہوتے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: