Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کے خطاب میں نیا کیا ہوگا؟

عمران خان 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ فوٹو اے ایف پی
وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے دورہ امریکہ سے قبل مظفر آباد میں جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں انڈین وزیراعظم کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے اس سے قبل ان کی مختلف سربراہان مملکت سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم اور کشمیری قیادت کے وفد سمیت مختلف عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

پیر کو عمران خان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نیویارک میں ملاقات ہوئی۔ فوٹو اے ایف پی

ادھر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بھی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود ہیں اور اتوار کی شب نریندرمودی نے امریکہ میں مقیم انڈین کمیونٹی سے خطاب بھی کیا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی۔ دونوں رہنماوں نے دہشت گردی کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کا عزم کیا۔ اس موقع پر امریکی صدر نے انڈیا کو بہترین دوست بھی قرار دیا۔
انڈین کمیونٹی کے اجتماع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شرکت کوانڈیا کی پاکستان پرسفارتی برتری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کی اہمیت اور اس سے وابستہ توقعات مزید بڑھ چکی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں نیا کیا ہوگا؟

سابق سفیر شمشاد احمد خان  کے مطابق وزیراعظم عمران خان کشمیریوں کے سفیر کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ ’ماضی میں کشمیر کے حوالے سے بات تو ہوتی رہی ہے لیکن ذاتی مفادات کو دیکھتے ہوئے  کشمیر کے حوالے سے کھل کر بات نہیں کی جاتی تھی۔ ‘
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب سے امیدیں زیادہ لگائی گئی ہیں۔ ’عمران خان نے اقوم متحدہ میں بھی وہی باتیں کرنی ہیں جو ہم پہلے سے کرتے آرہے ہیں ۔ لیکن اس بار اقوام متحدہ میں خطاب کی اہمیت اس لیے بڑھ چکی ہے کہ بین القوامی میڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کر رہا ہے اور دنیا کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول ہو چکی ہے۔‘

امجد شعیب کے مطابق  وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے انڈیا پر کوئی فوری دباؤ نہیں بڑھے گا۔ فوٹو اے ایف

شمشاد احمد کے مطابق عمران خان کشمیریوں کے سفیر کے طور پر دنیا کو انڈیا کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کریں گے۔ ’وہ دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ یہ ان کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموش رہے۔
سابق سفیر ایاز وزیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نریندر مودی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے انڈیا نے مسئلہ کشمیر کو خود اچھالا ہے اور یہ عمران خان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ دنیا کے سامنے کشمیر کے معاملے پر انڈیا کا اصل چہرہ سامنے لائیں۔

کیا وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے انڈیا پر دباؤ بڑھے گا؟

سابق سفیر شمشماد احمد کہتے ہیں ’عمران خان صرف یہی کر سکتے ہیں کہ وہ دنیا کو ان کی ذمہ داریاں یاد کروائیں۔  ہر سال دنیا کو کشمیر کے حوالے سے باور کروایا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا اور عمران خان بھی یہی کر سکتے ہیں۔‘
جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ان کا نہیں خیال کہ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے انڈیا پر کوئی فوری دباؤ بڑھے گا۔  ’انڈیا پر اخلاقی دباؤ تو ضرور آئے گا لیکن جو عالمی طاقتوں کی طرف سے دباؤ بڑھنا ہے وہ فوری طور پر آتا نظر نہیں آرہا۔‘
ان کے مطابق بیرون ملک مقیم انڈینز پر دباؤ بڑھے گا اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی انڈیا کی بدنامی ہو رہی ہے لیکن فوری طور پر کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کے حوالے سے دباؤ نہیں بڑھے گا۔

 

سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ ’یہ ایک دن کا مقدمہ نہیں کہ آپ نے تقریر کی اور آپ یہ جنگ جیت گئے، یہ لمبی سیاسی اور سفارتی جنگ ہے اور اس میں کشمیری عوام کی حمایت ہوگی تو اس کو تقویت ملے گی ۔ اگر پاکستان دنیا کو باور کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انڈیا پر دباؤ بڑھے گا ۔

وزیر اعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

سابق سفیر شمشاد احمد کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے بعد پاکستان اپنی کوشش جاری رکھے گا اورہرفورم پرکشمیرکا معاملہ اٹھائے گا۔ ’پاکستان جنگ کرے یہ درست نہیں کیوںکہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔ عمران خان کی پالیسی یہی ہے کہ سفارتی اور سیاسی طور پر کشمیر کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔
سابق سفیر ایاز وزیر سمجھتے ہیں کہ انڈیا کی جانب سے آنے والے دنوں میں کشمیر میں مزید مظالم ہوں گے۔ ’جیسے ہی کرفیو میں نرمی ہوگی تو کشمیری عوام باہر نکلیں گے اور مزید ظلم ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ جنگ کشمیری عوام نے لڑنی ہے اور پاکستان کے پاس یہی آپشن ہے کہ وہ دنیا کی توجہ کشمیر پر مبذول کرواتے رہیں۔
امجد شعیب کہتے ہیں کہ انڈیا نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا یکطرفہ اقدام کیا ہے جس کے بعد مسئلہ کشمیر اب دو طرفہ مسئلہ نہیں رہا۔

 

’ پاکستان کو اب واضح موقف اپنانا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ اب دوطرفہ نہیں ہے، یکطرفہ اقدامات کے بعد شملہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے اور اب تمام فیصلے سکیورٹی کونسل میں ہوں گے جہاں قرارداد پہلے سے موجود ہے۔‘
ان کے مطابق پاکستان کو یہ معاملہ اب سکیورٹی کونسل  لے کر جانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی لیکن یہ ایک دن کی بات نہیں ایک لمبا عمل ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: