Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ میں حکمرانوں کی تقاریر

ذوالفقار علی بھٹو کی بحیثیت وزیر خارجہ سلامتی کونسل میں کی جانے والی تقاریر کو بہت سراہا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر کے سربراہان مملکت سمیت پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے اس وقت نیو یارک میں موجود ہیں۔
وہ ایک ایسے موقع پر جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہیں جب پاکستان اور انڈیا کے مابین تناو آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور انڈیا نے اپنے زیراہتمام کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کر کے وہاں ایک طویل کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ لہٰذا 27 ستمبر کو ہونے والے اس خطاب پر پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی نظریں ہیں۔
گذشتہ 72 سالوں میں کئی مرتبہ ایسے مواقع آئے ہیں جب پاکستانی حکمرانوں کی اقوام متحدہ میں تقاریر انتہائی اہمیت کی حامل تھیں اور کچھ مواقع پر ان کے طرز عمل سے دنیا میں پاکستان کے بارے میں ایک خاص تاثر ابھرا۔ خاص کر ذوالفقار علی بھٹو کی 1965 اور 1971 کی پاک انڈیا جنگوں کے حوالے سے بحیثیت وزیر خارجہ سلامتی کونسل میں کی جانے والی تقاریر کو بہت سراہا گیا۔
22 ستمبر 1965ء کو سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں کہے گئے بھٹو کے جملے کئی سالوں تک زبان زد عام رہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم ہزار سال تک لڑیں گے، ہم اپنے دفاع میں لڑیں گے، ہم اپنے وقارکے لیے لڑیں گے، ہم زندگی کو نشوونما دینے والے لوگ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا نام ونشان مٹا دیا جائے۔ ہم نے اپنے وقارکے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی خاطر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کی بطور وزیر خارجہ سلامتی کونسل میں کی جانے والی تقاریر کو بہت سراہا گیا۔ فوٹو: ٹوئٹر

 ان دنوں بھٹو کی تقریر ریڈیو پر نشرکی جاتی تھیں۔ یہ تقریریں انگریزی میں ہوتی تھیں لیکن بازاروں میں ، ہوٹلوں پر، دوکانوں جہاں ریڈیو پر تقریر سنائی جاتی لو گوں کے ہجوم لگ جاتے تھے۔ لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے مگر بھٹو کے لہجے سے جانتے تھے کہ یہ پاکستان کے دل کی آواز ہے اور واقعی بھٹو ہر دل کی آواز بن گئے۔
سقوط ڈھاکہ سے ایک دن قبل ذوالفقار علی بھٹو سلامتی کونسل اجلاس سے خطاب میں کہہ رہے تھے ’میں آج یہاں کسی شرمناک ہتھیار پھینکنے کی تقریب میں شرکت کرنے نہیں آیا۔ اگر سلامتی کونسل ہتھیار پھینکنے کے عمل کو قانونی تحفظ دینا چاہتی ہے تو میں واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی صورت بھی ایسا نہیں ہونے دونگا۔ آج اقوام متحدہ مجھے ان فیشن گھروں کی طرح لگ رہی ہے جو بدنما حقیقتوں کو میک اپ کے ذریعے قابل دید بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ روس کے مستقل مندوب زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں۔ جناب روسی مندوب صاحب اس حقیقت پر بھی غور فرمائیں مجھے احساس ہے کہ آپ ایک بڑی طاقت کے نمائندے ہیں اور آپ کا رویہ اور طرز عمل سے بھی اس کی عکاسی ہو رہی ہے جس انداز سے آپ نے اپنے سینے کا زہر نکالا ہے اور جس طرح سے آپ بار بار میز پر مکے برسا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہے ہیں مگر میں مسکرا نہیں سکتا کیونکہ میرے دل سے خون بہہ رہا ہے میں آپ کی سلامتی کونسل سے جا رہا ہوں۔ میں اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے باعث شرم سمجھتا ہوں کہ میں یہاں ضرورت سے ایک لمحہ بھی زیادہ ٹھہروں۔ آپ ہم پر کوئی بھی فیصلہ تھوپ دیں ورسیلز کے معاہدے سے بھی بدتر معاہدہ کر لیں، حملے کو قانونی قرار دے دیں قبضے کو قانون کے عین مطابق قرار دے دیں اور 15 دسمبر 1971سے پہلے جو کچھ تھا اسے غیر قانونی کر دیں۔ مگر میں واضح کر دوں کہ میں کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ ہم جنگ کریں گے ہم واپس جا کر جنگ لڑیں گے۔ میری قوم میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میں کسی صورت بھی ہم پر ٹھونسے گئے ہتھیار پھینکنے کے عمل کا حصہ نہیں بنوں گا جس کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھودیں۔ اپنی سلامتی کونسل کو اپنے پاس رکھو۔ یہ لیجیے میں جا رہا ہوں۔‘
اس کے ساتھ ہی بھٹو اپنی تقریر کے نوٹس پھاڑتے ہوئے وفد کے ساتھ اجلاس سے واک آؤٹ کرکے ہال سے باہر آگئے۔

جنرل ضیا الحق نے اقوام متحدہ میں تقریر سے قبل تلاوت کرانے کے لیے ایک قاری کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔

1980 کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیا الحق  نے جنرل اسمبلی حکام کو درخواست دی تھی کہ ان کے خطاب سے قبل تلاوت کی اجازت دی جائے۔
اس مقصد کے لیے وہ اپنے ساتھ ایک قاری کو بھی اقوام متحدہ لے گئے، لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ تلاوت کی اجازت دینے سے تمام مذاہب کے سربراہان کوئی نہ کوئی مذہبی تقاضا پورا کرنے کا مطالبہ کریں گے ، لہٰذا اس عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس جواب کے بعد پاکستانی حکام نے ضیا الحق کی خواہش پورا کرنے کا یہ حل نکالا کہ جب وہ تقریر کرنے کے لیے گئے تو جنرل اسمبلی ہال کے باہر ایک بوتھ میں قاری صاحب نے تلاوت کی اور اس دوران ضیا الحق ڈائس پر خاموش کھڑے رہے۔
یہ تلاوت پی ٹی وی پر براہ راست سنی گئی اور عوام یہ سمجھے کہ ضیا الحق کی وجہ سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں پہلی بار تلاوت قرآن پاک کی گئی۔ جبکہ حقیقت میں تلاوت کی آواز ہال میں سنائی ہی نہیں گئی تھی۔
2012 میں جب صدر آصف علی زرداری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو اپنے ساتھ اپنی مرحوم اہلیہ بینظیر بھٹو کی تصویر بھی لے گئے اور اس کو اپنے سامنے روسٹرم پر رکھ دیا۔

آصف زرداری کی جنرل اسمبلی سے تقریر کے دوران بے نظیر بھٹو کی تصویر توجہ کا مرکز رہی۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایک دُکھی خاوند ہوں جس نے اپنے بچوں کی ماں کو دہشت گردی کے ناسُور کے خلاف لڑتے ہوئے اور اپنی جان دیتے دیکھا ہے۔‘
انھوں نے اس وقت کہا کہ ’میں یہاں سوالات کے جوابات دینے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی طرف سے سوالوں کے جواب مانگنے آیا ہوں۔‘
جولائی 2016 میں بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔ انڈیانے کشمیر میں پیلیٹ گن کا استعمال شروع کر رکھا تھا۔
اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برہان وانی کو جدوجہد آزادی کی علامت قرار دیا۔
برہان وانی کے تذکرے سے ان کے خطاب کو پاکستان اور کشمیر میں عوامی سطح پر بہت زیادہ پذیرائی ملی اور انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔

سنہ 2016 میں وزیراعظم نواز شریف کی جنرل اسمبلی سے تقریر کا محور بھی مسئلہ کشمیر تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

تاہم اپنے اس خطاب میں پاکستان میں گرفتار مبینہ انڈین جاسوس کمانڈر کلبھوشن جادھو کا نام نہ لینے پر پاکستان میں انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
2018 میں پاکستان کی نمائندگی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کی ۔
یہ وہ دن تھے جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے نام اپنے خط میں مذاکرات کی بحالی کی پیش کش کی تھی اور پاک انڈیا وزرائے خارجہ کی ملاقات اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر تجویز کی تھی۔
انڈیا نے پہلے اس ملاقات کی ہامی بھری اور بعد ازاں اپنے سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اور برہان وانی سے متعلق ڈاک ٹکٹس کے اجرا کو بنیاد بنا کر ملاقات منسوخ کر دی تھی۔ اسی طرح مغربی ممالک میں پیغمبراسلام سے متعلق گستاخانہ خاکوں کے واقعات بھی رونما ہوئے تھے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ میں اردو زبان میں تقریر کی اور دونوں معاملات پر قومی موقف کا اعادہ کیا۔ انھوں نے گستاخانہ خاکوں کے معاملے کو منظم سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مہذب اقوام ہی انتہا پسندی کے رویے کو فروغ دے رہی ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: