Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دلیر مجرم‘ سے ’عمران سیریز‘ تک اردو کے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ: ابنِ صفی

ابنِ صفی کو بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا اور وہ گھر والوں سے چوری چُھپے کتابیں پڑھا کرتے (فائل فوٹو: دی کوگنیٹ)
یہ اردو ادب کے ایک ایسے مُصنف کی زیست کا بیاں ہے جن کی کہانیوں میں مزاح بھی ہے اور فلسفہ بھی۔ قاری اُن کی تحریروں میں ایسا محو ہوتا ہے کہ ایک ہی نشست میں اُن کا پورا ناول پڑھ ڈالتا ہے۔
اُن کی تحریروں میں اِسرار بھی ہے، طنز بھی، رُومان بھی اور دلچسپ مکالمے بھی۔
اُن کی دنیا میں کردار ہنستے، لڑتے، اُلجھتے اور کبھی کبھی خاموشی سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ 
ایک طرف وہ قارئین کو بین الاقوامی سازشوں میں اُلجھاتے ہیں، تو دوسری جانب انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اردو میں شاید ہی کوئی دوسرا لکھاری ہو جس نے اِس رنگ سے کہانی بیان کی ہو۔ اُن کا انداز منفرد تھا، اور اس کا اثر آج بھی قائم ہے۔
ذکر ہو رہا ہے ابنِ صفی کا، جو آج ہی کے روز 26 جولائی 1928 کو انڈین ریاست اُترپردیش کے شہر الہ آباد کے قصبے نارا میں پیدا ہوئے۔ 
کچھ جگہوں پر اُن کی تاریخ پیدائش اپریل لکھی ہے، تاہم ابنِ صفی نے اپنے مضمون ’بقلم خود‘ میں لکھا تھا کہ ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعے کی شام دُھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہ تھا۔ ‘
ابنِ صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا مگر وہ مشہور ابنِ صفی کے نام سے ہوئے۔ یہ جملہ شاید کلیشے ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ابنِ صفی کو بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا۔
وہ گھر والوں سے چوری چُھپے کتابیں پڑھا کرتے مگر ایک دن پکڑے گئے، ڈانٹ تو پڑی مگر اُس دن سے اُن کے مطالعہ کرنے پر روک ٹوک ختم ہو گئی کیوں کہ اُن کی والدہ نے کچھ یوں اُن کا دفاع کیا، ’میرا بیٹا اُن لڑکوں سے تو بہتر ہے جو دن بھر گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔‘
مطالعہ پر روک ٹوک نہ رہی تو ابنِ صفی نے سات آٹھ برس کی عمر میں ہی ’طلسم ہوشربا‘ کی ساتوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ ازاں بعد جب الہ آباد آئے تو تراجم پڑھنے کا موقع ملا۔
ابنِ صفی نے اُس دور میں برطانوی مصنف رائیڈر ہیگرڈ کی کتابوں کے تراجم پڑھے جن سے متاثر ہو کر پہلی کہانی ’ناکام آرزو‘ کے نام سے لکھی جسے بمبئی کے ہفت روزہ ’شاہد‘ میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیا۔ اُس دور میں شائع ہونے والی اُن کی زیادہ کہانیاں رُومانوی تھیں۔

ابنِ صفی جب شیزوفرینیا کا شکار ہوئے تو اس وقت تک وہ عمران سیریز کے 41 ناول لکھ چکے تھے (فائل فوٹو: عمران سیریز فیس بُک پیج) 

ابنِ صفی سال 1948 میں عباس حسینی کے رسالے ’نکہت‘ سے منسلک ہو گئے اور اُس کے حصۂ نظم کے مدیر بنائے گئے۔ انہوں نے اس دور میں بہت سے طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھے۔
یہ سال 1952 تھا جب ابنِ صفی کا اولین جاسوسی ناول ’دلیر مجرم‘ شائع ہوا جس میں انہوں نے فریدی اور حمید کے کردار متعارف کروائے۔
ایک روز ابنِ صفی کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ بحث ہوئی کہ اردو میں صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ ابنِ صفی اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں تھے چناں چہ انہوں نے جاسوسی ناول لکھا تاکہ اس مفروضے کو غلط ثابت کر سکیں اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ یوں جاسوسی دنیا شائع ہونا شروع ہوا اور اسرار احمد کا ابنِ صفی کے طور پر جنم ہوا۔
اُس زمانے میں ’جاسوسی دنیا‘ کی قیمت نو آنے مقرر کی گئی اور یہ ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا تو ابنِ صفی نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ 
اسی برس اگست میں ابنِ صفی نے پاکستان ہجرت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک شاعر کے طور پر وہ اپنی پہچان بنا چکے تھے۔
ابنِ صفی کی بہن عذرا ریحانہ نے ماہ نامہ ’نئے افق‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پلیٹ فارم پر جہاں تک نظر جاتی تھی۔ اسرار ناروی (ابنِ صفی) کے چاہنے والے نظر آتے تھے۔‘
ابنِ صفی نے جب ہجرت کی تو وہ آٹھواں ناول ’مصنوعی ناک‘ تحریر کر رہے تھے۔
اگست 1955 میں اردو ادب کے قارئین ناول ’خوفناک عمارت ‘ کے ذریعے عمران یا ایکس ٹو سے متعارف ہوئے۔ 

 ابنِ صفی نے جب انڈیا سے پاکستان ہجرت کی تو وہ آٹھواں ناول ’مصنوعی ناک‘ تحریر کر رہے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ وہ کردار ہے جس نے کئی برسوں تک اردو پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ بہت سے لوگوں نے عمران سیریز لکھی مگر ان میں زبان کی وہ چاشنی نہیں تھی جو ابنِ صفی کا خاصا تھا۔
اس دور میں اُن کے ناولوں کا ہر سُو چرچا تھا۔ بڑے بڑے شاعر اور ادیب وقت گزارنے کے لیے اُن کے ناول پڑھا کرتے مگر برسرِعام یہ قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
اس دوران ہی سال 1961 میں ابنِ صفی شیزوفرینیا کی بیماری کا شکار ہو گئے، اس وقت تک وہ فریدی حمید سیریز کے 88 اور عمران سیریز کے 41 ناول لکھ چکے تھے۔ وہ تین سال اس بیماری میں مبتلا رہے، صحت یاب ہوئے تو دوبارہ پوری آب و تاب سے لکھنے لگے۔
انہوں نے ان تین برسوں کے دوران کوئی تحریر نہیں لکھی مگر اس دوران بہت سے لوگ ان سے ملتے جلتے ناموں جیسے کہ ’این صفی‘ اور ’ابنِ صقی‘ کے نام سے ناول لکھتے رہے مگر ان میں وہ بات کہاں تھی جو ابنِ صفی کی تحریروں میں تھی۔
ابنِ صفی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معروف برطانوی ناول نگار اگاتھا کرسٹی نے اُن کو کچھ ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔
’میں اگرچہ اردو زبان نہیں جانتی لیکن مجھے برصغیر کے جاسوسی ناولوں کے بارے میں معلومات ہیں، وہاں صرف ایک ہی حقیقی جاسوسی ناول نگار تھا ’ابن صفی۔‘

 معروف برطانوی ناول نگار اگاتھا کرسٹی نے ابنِ صفی کو برصغیر کا حقیقی جاسوسی ناول نگار قرار دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ابنِ صفی کی تحریروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں جابجا بذلہ سنجی اور مزاح کی چاشنی ملے گی جس کے باعث کچھ محققین ابنِ صفی کو بطور مزاح نگار بھی زیرِبحث لائے ہیں۔ 
ماہرِ لسانیات اور محقق پروفیسر فین تھیس کہتے ہیں کہ ’مزاح اور سسپنس کو یکجا کرنا ہی بڑا کارنامہ ہے کیوں کہ عموماً لوگ مزاح لکھتے ہیں تو اس میں سسپنس نہیں ہوتا، یعنی سسپنس اور مزاح کا ایک ساتھ ہونا ہی شاندار کارنامہ ہے۔‘
ابنِ صفی کا مزاح بہت شائستہ ہے جس سے پڑھنے والا ان کے ہم عصر دانش ورانہ اور ادبی رویوں سے بھی آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ بات سے بات کرتے اچانک ہی کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں جو قاری کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اُن کے ناول ’ڈیڑھ متوالے‘ سے یہ اقتباس دیکھیے:
’خدا بھلا کرے فیض صاحب کا کہ انہوں نے اپنے بعد پھر کوئی اوریجنل شاعر پیدا ہی نہ ہونے دیا۔ صرف دو تین اس بھیڑ سے الگ معلوم ہوتے ہیں جیسے جمیل الدین عالی اور جعفر طاہر وغیرہ … آگے رہے ﷲ کا نام!‘
’اچھا!‘ شاعر صاحب نے جھلا کر کہا۔ ’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے!‘
’پتھر توڑتے ہیں!‘
معروف ادیب اور سب رنگ ڈائجسٹ کے شکیل عادل زادہ اُن کے اِس انداز کے مداح تھے، انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’بے ساختگی، برجستگی، سادگی اور خوش اندازی، ابنِ صفی کی تحریروں کا خاصّہ تھی۔ 

ابنِ صفی کی تحریروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں جابجا بذلہ سنجی اور مزاح کی چاشنی ملے گی (فائل فوٹو: ان سپلیش)

وہ اُردو کے بڑے بڑے جغادری ادیبوں سے زیادہ خوب صورت نثر لکھتے تھے۔ چہکتے چٹختے فقرے، گُدگُدی کرتی عبارتیں، اُن کا پیرایۂ اظہار اُن ہی سے مخصوص تھا۔‘
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ابنِ صفی اردو کے اولین جاسوسی ناول نگار تھے۔ یہ درست ہے کہ ان سے قبل بھی کچھ لوگوں نے جاسوسی ناول لکھے جن میں پنڈت کشور چند، بدرالنسا، بیگم طالب بنارسی لکھنوی سمیت بہت سے نام شامل ہیں مگر یہ سب ترجمہ نگار تھے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اولین طبع زاد جاسوسی ناول ابنِ صفی نے لکھا بلکہ اُن کے پہلے جاسوسی ناول ’دلیر مجرم‘ کی کہانی بھی ایک جرمن مصنف کے ناول سے ماخوذ تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے قبل اردو زبان میں ناول نگاری کی کوئی روایت نہیں تھی۔
ابنِ صفی ایک عمدہ شاعر بھی تھے اور شاعری کی دنیا میں اسرار نانوروی کے نام سے جانے جاتے تھے۔
ان کی یہ عزل کلاسیکی گائیک حبیب ولی محمد نے گائی ہے:
راہِ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشکِ غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں

ابنِ صفی 26 جولائی 1928 کو انڈین ریاست اُترپردیش کے شہر الہ آباد کے قصبے نارا میں پیدا ہوئے (فائل فوٹو: ان سپلیش) 

ابنِ صفی آج ہی کے روز 26 جولائی 1980 کو 52 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ انہوں نے 28 برس کے اپنے تخلیقی سفر کے دوران 245 ناول لکھے یعنی ایک ماہ میں ایک ناول لکھا۔ اُن کے کئی ناول انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔
جاسوسی دنیا کے اس بے تاج بادشاہ نے نہ صرف اردو کے قارئین کو ایک نئی صِنف سے روشناس کرایا بلکہ ایسے کردار تخلیق کیے جو آج بھی قاری کے ذہن پر نقش ہیں چاہے وہ عمران کی شوخی ہو یا کرنل فریدی کی سنجیدگی، یا پھر انسپکٹر حمید کی شرارتیں۔
ابنِ صفی کا کمال یہ نہیں کہ انہوں نے جاسوسی ناول لکھے، بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے اس صِنف کو ایسا تخلیقی رنگ دیا کہ عام قاری سے لے کر ادبی نقاد تک کوئی بھی انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا۔
آخر میں اُن کا یہ شعر دیکھیے:
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں

 

شیئر: