Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسکر مقابلے میں انڈیا کی فلمیں آج تک ناکام!

انڈین فلموں کو آسکر ملنا تو دور کی بات اسے اب تک صرف تین بار مقابلوں میں شامل کیا گیا ہے۔ فوٹو: سکرین گریب
انڈیا نے رواں سال رنویر سنگھ اور عالیہ بھٹ کی فلم 'گلی بوائے' کو آسکر میں بہترین بین الاقوامی فلم کے مقابلے میں بھیجا ہے۔
جب سے آسکر میں یہ کیٹیگری شروع ہوئی ہے اس کے دوسرے سال سے ہی انڈیا نے تقریباً ہر سال آسکر میں مختلف زبانوں میں بننے والی اپنی فلمیں بھیجی ہیں۔
لیکن انڈیا سے جانے والی فلموں کی کارکردگی اب تک مایوس کن رہی ہے۔ انعام ملنا تو دور کی بات اسے اب تک صرف تین بار مقابلوں میں شامل کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اکیڈمی ایوارڈز یعنی آسکر میں انڈین فلموں کا ذکر کریں آئیے یہ جان لیں کہ انڈیا میں فلم انڈسٹری کی کیا صورت حال ہے۔
انڈیا میں مختلف زبانوں میں سالانہ دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں تیار ہوتی ہیں اور بالی وڈ کا اس میں بڑا حصہ ہوتا ہے۔
در اصل بالی وڈ ممبئی میں بنائی جانے والی ہندی فلموں کو کہا جاتا ہے جو کہ امریکہ کی فلمی صنعت ہالی وڈ سے لیا گیا ہے۔ بعض اوقات انڈین سینیما کو بھی بالی وڈ کہا جاتا ہے۔

کیا اس مرتبہ انڈین فلم ’گلی بوائے‘ آسکر میں اپنی جگہ بنا پائے گی؟ فوٹو: اےایف پی

ہالی وڈ کی طرز پر اسی طرح دوسرے نام بھی ہیں جیسے لالی وڈ، ٹالی وڈ، مالی وڈ وغیرہ۔ اگر لالی وڈ لاہور میں بننے والی فلموں کو کہا جاتا ہے تو کبھی کولکتہ میں بنائی جانے والی فلموں کو ٹالی وڈ کہا جاتا تھا کیونکہ اکثر فلمی سٹوڈیو اس وقت کولکتہ کے ٹالی گنج میں ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں مدراس یعنی چینئی میں بننے والی فلموں کے لیے مالی وڈ کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن انڈیا میں بڑی تعداد میں تمل، تیلگو، کنڑ، مراٹھی، بنگالی اور بھوجپوری میں بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔
یوں تو آسکر ایوارڈز کی ابتدا سنہ 1929 میں ہی ہو چکی تھی لیکن اس میں صرف امریکہ اور بطور خاصل ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کو شامل کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد سنہ 50-1940  کی دہائی میں بیرون میں بننے والی انگریزی فلموں کو بھی شامل کیا گیا لیکن سنہ 1956 میں باضابطہ طور پر دوسری زبانوں میں بننے والی فلموں کو شامل کیا جانے لگا اور اس وقت سے اب تک پابندی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔
سنہ 1956 میں انڈیا کی جانب سے کوئی فلم تو نہیں روانہ کی گئی لیکن پھر سنہ 1957 میں معروف ہدایتکار اور فلم ساز محبوب خان کی معروف فلم 'مدر انڈیا' کو آسکر میں نامزدگی کے لیے بھیجا گیا۔ اور اسے مقابلوں میں نامزدگی ملی جس سے انڈیا میں فلموں کے معیار کی علامت کہا جا سکتا ہے۔
اس فلم میں اداکارہ نرگس نے یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد دوسرے سال بمل رائے کی ہدایت والی اور اداکار دلیپ کمار اور وجینتی مالا کی معروف فلم 'مدھو متی' کو آسکر کے لیے روانہ کیا گیا لیکن اسے مقابلوں میں شامل نہیں کیا جا سکا۔ حالانکہ یہ انڈیا کی انتہائی کامیاب اور ٹرینڈ سیٹ کرنے والی فلم کہلائی۔
ان دونوں فلموں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ مشترکہ ہندی اور اردو زبان میں بنی تھیں۔ ان دونوں کے بعد 1959 میں اںڈیا کے چوٹی کے ہدایتکار ستیہ جیت رے کی بنگالی زبان میں بننے والی فلم 'اپور سنسار' یعنی اپو کی دنیا بھیجی گئی اور اسے بھی مقابلے میں شمولیت کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔

انڈیا میں مختلف زبانوں میں سالانہ دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں تیار ہوتی ہیں. فوٹو: اے ایف پی

انڈیا کی جانب سے اس پے در پے ناکامی کے بعد دو سال تک کوئی فلم نہیں بھیجی گئی اور سنہ 1962 میں ابرار علوی کی فلم 'صاحب بی بی اور غلام' روانہ کی گئی جسے بالی وڈ میں سنگ میل کا درجہ حاصل ہے اور اس میں گرودت اور مینا کماری نے بے مثال اداکاری کا نمونہ پیش کیا ہے۔ لیکن اس فلم کو بھی مقابلے میں شرکت کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔
اس کے بعد 1988 تک انڈیا کی جانب سے مستقل طور پر فلمیں بھیجی گئیں جن میں دیو آنند اور وحیدہ رحمان کی اداکاری والی فلم 'گائڈ، سنیل دت اور وحیدہ رحمان کی اداکاری والی فلم 'ریشما اور شیرا'، شیام بینیگل کی فلم 'منتھن'، ستیہ جیت رے کی فلم 'شطرنج کے کھلاڑی'، مہیش بھٹ کی 'سارانش'، رمیش سپی کی فلم 'ساگر' وغیرہ شامل رہیں لیکن کسی کو بھی مقابلے میں شامل نہیں کیا جا سکا۔
سنہ 1988 میں میرا نائر کی فلم 'سلام بامبے' کو بہر حال مقابلے میں شامل کیا گیا لیکن اسے انعام نہ مل سکا۔
اس کے بعد سنہ 2001 میں آسوتوش گوریکر کی عامر خان کی اداکاری والی فلم 'لگان' کو مقابلوں میں شامل کیا گیا۔ اور پھر اس کے بعد سے 2003 کو چھوڑ کر ہر سال فلمیں روانہ کی گئیں لیکن انھیں نامزدگی نہیں مل سکی۔
رواں سال فلم 'گلی بوائے' روانہ کی گئی ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی قبل از وقت ہوگی۔
شوبز کی خبروں کے لیے ’’اردو نیوز شوبز‘‘ جوائن کریں

شیئر: