Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی فلم کے لیے اعزاز، ایمی ایوارڈ جیت لیا

’آرمڈ ود فیتھ‘ بم ڈسپوزل سکواڈ اہلکاروں کی زندگی پر مبنی ہے، تصویر: سوشل میڈیا
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کی زندگی پہ بنی ڈاکومنٹری فلم ’آرمڈ ود فیتھ‘ نے غیر معمولی سیاست اور حکومت کی کیٹگری میں ایمی ایوارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبے خیبرپختونخوا کی پولیس کے اہم ترین بم ڈسپوزل سکواڈ کے شہدا اور غازیوں کی مشکلات، حالات زندگی اور عزم و ہمت کی داستان بیان کرتی اس ڈاکومنٹری کو آسکر ایوارڈ یافتہ اسد فاروقی نے ڈائریکٹ اور پروڈیوس کیا تھا۔
فلم کی ایگزیکٹو پروڈیوسر آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے اور معاون پروڈیوسر حیا فاطمہ اقبال ہیں جو اس سے پہلے بھی آسکر ایوارڈ یافتہ ڈاکومنٹری ’سیونگ فیس‘ اور ’گرل بائے دا ریور‘ کا حصہ رہی ہیں۔
فلم کی پروڈیوسر حیا فاطمہ اقبال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایمی ایوارڈ ملنے پر انہیں بہت خوشی ہے، اس فلم کی شوٹنگ ان کے لیے ایک دلچسپ تجربہ تھا۔

حیا فاطمہ کے مطابق بم ڈسپوزل سکواڈ کے ہر اہلکار نے 300 بم ناکارہ بنائے، تصویر: ٹوئتڑ

 ان کا کہنا تھا کے خیبرپختونخوا پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار اپنے کام میں ماہر ہیں اور قریباً ہر اہلکار نے 300 کے قریب بموں کو ناکارہ بنایا ہے۔ ’ان کے کام کی اہمیت اور نوعیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر بندہ 300 بم ناکارہ نہ بناتا تو کیا ہوتا۔‘
حیا فاطمہ نے کہا کہ جب ہماری زندگی میں ایک آدھ مسئلہ آتا ہے اور ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو حل کر لیں تو پھر آسانی ہو گی، اس کے برعکس ان اہلکاروں کی زندگی میں روزانہ ہی جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور سکون کا لمحہ بس ایک بم کے ناکارہ بنانے سے دوسرے بم کی اطلاع ملنے تک کا ہوتا ہے۔

شرمین ایگزیکٹو پروڈیوسر،حیا فاطمہ معاون پروڈیوسر،اسد فاروقی ڈائریکٹر ہیں، تصویر: ٹوئٹر

ڈاکومنٹری آرمڈ وڈ فیتھ (عقیدے سے لیس) کی زیادہ تر شوٹنگ سابقہ قبائلی علاقے میں ہوئی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکومنٹری فلم کی کہانی بم ڈسپوزل سکواڈ کے دو اہلکاروں کے گرد گھومتی ہے، جن میں سے ایک ڈیرہ اسماعیل خان کے انسپکٹر انعام اللہ ہیں جنہیں پولیس فورس ٹائیگر کے نام سے پہچانتی ہے اور بم ناکارہ بنانے کے دوران ان کی ایک ٹانگ بھی ضائع ہو چکی ہے لیکن ان کا عزم و حوصلہ قائم ہے۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جان کے خطرے اور مراعات نہ ہونے کے باعث ان اہلکاروں کی نجی زندگی کتنی متاثر ہوتی ہے۔ اسی دباؤ میں آکر پشاور کے بم ڈسپوزل سکواڈ کا ایک اہلکار عبد الرحیم نوکری سے لمبی چھٹی لے کر سعودی عرب چلا جاتا ہے تا کہ اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنا سکے لیکن وہاں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ واپس آکر دوبارہ پرانی نوکری پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ 

’آرمڈ ود فیتھ‘ کی شوٹنگ 2014 میں شروع ہوئی جبکہ سکریننگ 2017 میں ہوئی، تصویر: ٹوئٹر

آج بھی بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کو ان کی تنخواہ کے علاوہ محض پانچ ہزار روپے الاؤنس ملتا ہے۔
اس فلم کی شوٹنگ 2014 میں شروع ہوئی تھی جبکہ اس کی سکریننگ 2017 میں ہوئی تھی۔ ایمی ایوارڈ ملنے کے بعد شرمین عبید چنائے نے فلم کے کریو اور خاص طور پر ڈائریکٹر اسد فاروقی کو مبارک باد دی۔
فلم کے معاون پروڈیوسر حیا فاطمہ اقبال نے فیس بک پیج پر لکھا کہ  ’ہم نے ایمی جیت لیں ہاں ہم نے ایمی جیت لیں! ہماری فلم ’آرمڈ ود فیتھ‘ نے ’بہترین گورنمنٹ اینڈ پولیٹکس ڈاکومینٹری‘ ایوارڈ جیت لی۔  بطور معاون پروڈیوسر یہ فلم مجھے بہت عزیز ہے کیونکہ اس کی شروعات محبت اور انسانیت سے ہوئی ور اسی نوٹ پر اس کا احتتام ہوا ہے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے جب میں پہلی مرتبہ پشاور کے تھانہ گلبھار گئی اور بم دسپوزل سکواڈ کے سب سے سینئر ممبر عبدالحق صاحب سے ملی۔ انہوں نے مجھے وہ تمام بم دکھائے جو کہ اس یونٹ نے ڈی فیوز کیا تھا۔ اس کے بعد نارمل انداز میں وہ ہماری ٹیم کے لیے چائے کپ میں ڈالنے لگے جیسا کہ یہ ان کے لیے معمول کی بات ہے۔  بعض دفعہ میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ دو دہائیوں تک یہ خیبر پختونخواہ میں ہوتا رہا ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں کے دوران عبدالحق صاحب اور کے پی بم ڈسپوزل سکواڈ کے کئی دوسرے اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اس فلم میں ان کی کہانیوں کو ڈاکومینٹ کیا گیا ہے اور یہ باور کرایا گیا ہے خیبر پختونخواہ میں کہ اگر یہ لوگ انتہائی مہارت اور جذبے کے ساتھ اپنے فرائض انجام نہ دے رہے ہوتے تو جیا ہوتا۔ ان کے ذہین میں ہمیشہ کلیریٹی تھا کہ ان کی خدمات کا صیحح معنوں میں صلہ اس دنیا میں نہیں دیا جاسکتا، اور اس کے باوجود وہ اس کام کو کرتے رہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے بغیر کوئی اور اس کام کو نہیں کر سکتا۔ ان ہیروز کو یاد کرنا بہت ہی اہم ہے کیونکہ عموماً وہ اس وقت خبروں کی زینت بنتے ہیں جب وہ اپنے کام نہیں کر پاتے اور دھماکہ ہوتا ہے۔  ہماری یہ فلم آپ کو اس ان دیکھی دنیا تک لے جائے گی کہ ان کو اپنے کام کرنے کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: