Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بابائے جمہوریت‘ کی یاد میں

برصغیر میں عام طور پر لوگوں کے سیاست میں آنے کا مقصد اقتدار کے ایوانوں میں رسائی ہی ہوتا ہے لیکن نواب زادہ نصر اللہ خان ذرا اور ڈھب کے سیاست دان تھے۔
ان کا تعلق جاگیردار طبقے سے تھا جسے اقتدار اور رسوخ کا ہوکا دوسرے طبقات سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اشرافیہ کے تعلیمی ادارے ایچی سن کالج سے پڑھے نواب نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو پنجاب میں یونینسٹ پارٹی مراعات یافتہ طبقات کی پناہ گاہ تھی، آسان اور سیدھا راستہ یہی تھا کہ وہ اس پارٹی میں شامل ہو کر سیاسی مستقبل تابناک بناتے لیکن وہ کٹھن رستوں کے راہی تھے اور ان کا معاملہ تو یہ تھا:
 جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر!
اس لیے وہ انگریزوں کی کسی حامی جماعت کے بجائے ان کی کٹر مخالف ’مجلس احرار‘ میں شامل ہوئے جس کے قائد عطااللہ شاہ بخاری تھے۔ 1933 میں 17 برس کی عمر میں احراری بننے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اعتبارسے اپوزیشن کی سیاست ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ 1946 کے انتخابات میں انھوں نے احرار کی طرف سے مظفر گڑھ سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
قیام پاکستان کے بعد 1951 میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں، مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ چند سال بعد حسین شہید سہر وردی کی عوامی لیگ میں شامل ہوگئے۔

ایوب خان کے خلاف تحریک نے جب زور پکڑا تو شیخ مجیب الرحمٰن سے بات چیت کا مینڈیٹ نواب زادہ کو ملا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

1962 میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ 1964 میں کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے اتحاد بنا تو اس میں عوامی لیگ کی طرف سے سرگرم کردار ادا کیا۔ اس اتحاد کی سب سے اہم کامیابی صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نامزد کرنا تھا۔ 
آمر نے دھاندلی سے الیکشن جیت تو لیا کہ بقول نامور شاعرہ فہمیدہ ریاض: ’کرسی نشیں فوجی جنرل الیکشن ہارا نہیں کرتے‘ لیکن اس داغ دار کامیابی کے باوجود فاطمہ جناح کی عوامی پذیرائی نے ایوب خان کے اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔
1967 میں ایوب حکومت کے خلاف ’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘ کا قیام عمل میں آیا (1968 کے اواخر میں اس کا نام ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی ہوگیا) جس کی سربراہی نواب زادہ کے حصے میں آئی۔ ان کے پرائیویٹ سیکریٹری جمشید احمد ملک نے چند سال پہلے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایوب خان کے وزیر خواجہ شہاب الدین نے نواب زادہ کو لاہور میں سیاسی رشوت کی پیشکش کی جس کو انھوں نے ٹھکرا دیا۔ اس دور میں وہ گرفتاربھی ہوئے۔
ایوب خان کے خلاف تحریک نے زور پکڑا توانھیں اپوزیشن سے مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اگرتلا سازش کیس کی وجہ سے جیل میں تھے۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ان سے بات چیت کا مینڈیٹ نواب زادہ کو ملا، انھی کی کوشش سے مجیب رہا ہو کر مذاکراتی عمل کا حصہ بنے۔
بھٹو دور میں ’یو ڈی ایف‘ کے نام سے اتحاد کے قیام میں بھی نواب زادہ نصر اللہ پیش پیش تھے۔ 

1969 میں ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں نوابزادہ اور صدر مسلم لیگ ممتاز احمد دولتانہ سمیت دیگر نے بھی شرکت کی تھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

1977 میں نو جماعتیں ’پاکستان قومی اتحاد‘ کے بینر تلے اکٹھی ہوئیں۔ نواب زادہ کی پاکستان جمہوری پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے انتخابات میں مل کر پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ انتخابات ہوئے تو قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا اور حکومت کے خلاف تحریک  کا آغاز کر دیا۔
حکومت سے مذاکرات شروع ہوئے تو اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم میں مفتی محمود اور پروفیسر غفور کے ساتھ نواب زادہ نصراللہ بھی شامل تھے۔ مذاکرات فیصلہ کن موڑ پر پہنچے اور پروفیسر غفور کے بقول، فریقین میں معاہدہ ہونے کو تھا کہ مارشل لا لگ گیا۔
دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک جس کو بعد میں مذہبی رنگ دیا گیا، اس کے نتیجے میں ضیاالحق کی آمریت کا سیاہ دور شروع ہوا اور پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، جس کی وجہ سے قومی اتحاد کے بارے میں جمہوریت پسند حلقے تحفظات ظاہر کرتے رہے ہیں۔ 
ضیاالحق کے جبر اور الیکشن کرانے کے وعدے سے پھرنے پرنواب زادہ سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے متحرک ہوئے۔ پیپلز پارٹی سیاسی جماعتوں کی ڈسی ہوئی تھی، اس لیے شروع میں وہ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہوئی لیکن آخر کار نواب زادہ کی کوششیں رنگ لے آئیں اور پیپلزپارٹی بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے پر رضامند ہوگئی۔

نوابزادہ کو پیپلز پارٹی کے خلاف بنائے گئے ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ میں شامل نہ ہونے پر فخر تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا 

1981 میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) پر نو سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہوگیا۔ اس تحریک کی سندھ میں بہت زیادہ پذیرائی پر فوجی حکومت ہل کر رہ گئی۔ دباﺅ سے نکلنے کے لیے ضیاالحق نے پہلے ریفرنڈم کا ڈراما رچایا اور بعد میں غیر جماعتی انتخابات کرائے جن کا ایم آر ڈی نے بائیکاٹ کردیا۔
تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ مناسب  فیصلہ نہ تھا، اس بات کو بعد میں محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی تسلیم کیا۔
ضیاالحق کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ بنوایا تو اس میں نواب زادہ شامل نہ ہوئے۔ اپنے اس فیصلے پر وہ فخر کا اظہار کرتے۔ 1988 کے انتخابات میں وہ مظفر گڑھ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھوں نے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ان کی حمایت کرے گی لیکن اس نے الٹا انھیں اسحاق خان کے حق میں دستبردار ہونے کو کہا، جس سے انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے۔
1990 کے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نواب زادہ اسمبلی میں نہ پہنچ سکے، لیکن باہر رہ کر وہ سرگرم رہے۔ حکومت کے خلاف ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ بنایا۔ 
1993 میں وہ رکن قومی اسمبلی بنے تو ان کے سیاسی کیرئیر نے نیا موڑ لیا۔ وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن کر پہلی دفعہ حکومت کا حصہ بنے اور مراعات حاصل کیں۔ پنجاب میں ان کے بیٹے نواب زادہ منصور احمد خان صوبائی وزیرِ مال بنے۔

نواز شریف کی 1990 میں بننے والی حکومت کے خلاف نوابزادہ نے ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ بنایا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

1997 میں انھوں نے آخری مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا جس میں انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
سیاست کے میدان میں انھوں نے آخری جنگ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف لڑی۔ ان کی سربراہی میں اے آرڈی (الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیمو کریسی) کا سب سے اہم کارنامہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا، آگے چل کر دونوں پارٹیوں کے آپس میں تعلقات اس حد تک بہتر ہوگئے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دست خط کیے۔
نواب زادہ آخری سانسوں تک آمریت سے لڑتے رہے، وفات سے دو دن قبل انھوں نے پریس کانفرنس کی، جس روز دنیا سے کوچ کیا، ان کی سربراہی میں اے آر ڈی کا اہم اجلاس ہونا طے تھا۔ نواب زادہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ 11 سیاسی اتحادوں کا حصہ رہے۔
27 ستمبر 2003 کو وہ دل کا دورہ پڑنے سے اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔ انھیں آبائی علاقے خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کا سیاسی کیریئر 70 برسوں پر محیط تھا۔

پھندنے والی ترکی ٹوپی اور حقہ نوابزادہ کی شناخت بن گئے تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نواب زادہ نصر اللہ خان کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات سے انکار نہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ پاکستان جمہوری پارٹی کو ایک مقبول جماعت بنانے میں ناکام رہے۔ سیاسی مخالفین اسے تانگہ پارٹی کہہ کر ان پر طنز بھی کرتے۔ انھوں نے جاگیرداری کے تحفظ کے لیے ’انجمن تحفظ حقوق کاشتکاراں تحت شریعت‘ بھی بنائی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنے طبقے کے مفادات کس قدر عزیز تھے۔
نواب زادہ کی سیاست ہی نہیں، شخصیت بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ پھندنے والی ترکی ٹوپی ان کی شناخت بن گئی تھی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ یہ کسی زمانے میں صرف چیکوسلواکیہ میں بنتی تھی۔ یہ بھی کہا کہ کمال اتاترک نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
نواب زادہ کو سیاست میں سرگرم رکھنے کے لیے حقے کا گرم رہنا بھی ضروری تھا، جس کو وہ بڑے شوق سے پیتے۔ والدہ پان کھاتی تھیں توان کے دیکھا دیکھی پان کھانے کی عادت بھی ہوگئی۔ شعرو شاعری سے شغف تھا۔ اردو اور فارسی کے بہت سے شعر زبانی یاد تھے جنھیں موقع محل کی مناسبت سے سناتے۔ خود بھی شعر کہتے۔ مشاعروں میں شریک ہوتے اور بڑے جوش وخروش سے اپنا کلام پڑھتے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس 32 نکلسن روڈ پر ان کا دفترتھا، جو ان کی رہائش گاہ کا کام بھی دیتا۔ 60 کی دہائی کے آخری برسوں میں وہ یہاں آباد ہوئے اور پھر یہاں سے ہلے نہیں۔ مدتوں یہ جگہ شہر میں سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مکان قومی سیاست کی یادگار سمجھ کر محفوظ کرلیا جاتا، لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا ۔
اب اس سیاسی یادگار کا نام و نشاں تک باقی نہیں۔ 2016 میں اسے اورنج لائن منصوبے کی راہ میں رکاوٹ جان کر ملیا میٹ کردیا گیا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: