Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میری ذاتی زندگی ذاتی نہیں رہی‘

سوشل میڈیا پر منفی تبصروں سے تنگ آگر مناہل بلوچ نے گذشتہ ہفتے اپنے ہزاروں فالورز والا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر دیا۔ فوٹو
ابھی پچھلے دنوں تک کراچی سے تعلق رکھنے والی سرگرم سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مناہل بلوچ ٹوئٹر پر اہم موضوعات پر بحث کر رہی تھیں اور اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں معاشرے کے مسائل پر روشنی ڈالا کرتی تھیں۔
لیکن گذشتہ ہفتے انہوں نے تنگ آ کر اپنا ہزاروں فالورز سے لیس ٹوئٹر اکاونٹ بند کردیا۔ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 20 سالہ مناہل نے بتایا کہ کیسے سوشل میڈیا کا منفی اثر ان کے سر پر سوار ہوگیا اور وہ اتنا تنگ آ گئیں کہ انہوں نے اس سے دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔
میری ذہنی صحت کافی متاثر ہورہی تھی۔ میں آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی۔ وہی چیزیں اپنے بارے میں دیکھنا، وہی تنگ کرنا اور سب کا مل کر مجھے نشانہ بنانا۔ اتنی ٹویٹس سیاست کے بارے میں نہیں ہورہی تھیں، جتنی میرے بارے میں ٹوئٹر پر ہورہی ہیں۔ میری ذاتی زندگی ذاتی نہیں رہی۔
جواں سالہ مناہل نے چند ماہ پہلے اس وقت خوب پذیرائی حاصل کی، جب انہوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے لیے ایک سکوٹر خریدا۔ ایک کثیر تعداد نے اس عمل پر ان کا ساتھ دیا کیونکہ خواتین کا سکوٹر چلانا معاشرے میں اب تک معیوب سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف لوگوں نے طعنہ زنی بھی شروع کردی کہ انہوں نے لوگوں سے پیسے مانگ کر اپنا شوق پورا کیا ۔
مناہل کے جہاں ہزاروں مداح ہیں وہاں ان کا ماننا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک عورت کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ’وہ نہیں دیکھ سکتے کہ ایک عورت خود بھی کچھ سوچ سکتی ہے اور اس پر عمل کرسکتی ہے۔‘
مجھے لگتا ہے کہ ان کو میرا آگے بڑھنا اچھا نہیں لگتا۔ معاشرے کے جو اوہام ہیں جس طرح ایک عورت کو ہونا چاہیے، اس پر میں پورا نہیں اترتی۔ تو وہ لوگ مجھے میرا ماضی دکھا رہے ہیں۔ کہ تم ماضی میں ایسی تھی۔ اب ایسی ہوگئی ہو، تم بھٹک گئی ہو، تم راہِ حق پر نہیں ہو۔
پچھلے دنوں مناہل اس وقت تنقید کی زد میں آئیں جب انہوں نے ایک سال پہلے اپنی خودکشی کی ناکام کوشش کے حوالے سے کچھ لکھا۔ انہوں نے خود کشی کی کوشش کے فوراً بعد کی تصاویر ڈالیں اور لوگوں کو بتایا کہ اب وہ بالکل بدل چکی ہیں اوراپنی زندگی ختم کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ بحث شروع کردی کہ کیا واقعی مناہل نے خودکشی کی کوشش کی تھی یا یہ بس ایک ڈرامہ تھا؟ اس بے جا تنقید کو پڑھ کر مناہل کو سخت صدمہ پہنچا جب کچھ صارفین نے تو ان کے مطابق ’فارینزک تحقیق‘ شروع کردی کہ آیا تصویریں درست ہیں یا یہ سب جھوٹ ہے۔

پچھلے دنوں مناہل اس وقت تنقید کی زد میں آئیں جب انہوں نے ایک سال پہلے اپنی خودکشی کی ناکام کوشش کے حوالے سے کچھ لکھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اگر میں کسی چیز کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ میری وجہ سے اگر وہ بات ہو رہی ہے، ایک پلیٹ فارم پر تو آپ کیوں اس بات کرنے والے کے بارے میں بات کرتے ہیں؟ آپ اس موضوع پر بات کیوں نہیں کرتے؟‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جو مجھے تنقید سننے کو ملی انسدادِ خودکشی کے دن پر جو میری پوسٹ تھی اس کو دیکھ کر کتنے لوگ اپنی کہانی بتانے سے پیچھے ہٹ گئے ہوں گے کیونکہ ہمیں بھی یہ کہا جائے گا کہ یہ تو توجہ کے خواہش مند ہیں۔ مطلب اب میں اپنی خودکشی کو ثابت کرنے کے لیے حقیقت میں خودکشی کرلوں؟
مناہل کئی مہینوں سے مختلف مسائل پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ چاہے بات پبلک بسوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی ہو، یا پھر خواتین کا بائیک پر بیٹھنا، یا پھر اکیلے زندگی گزارنا، مناہل کی کوشش رہتی تھی کہ وہ معاشرتی مسائل پر اپنے تجربے کی بنا پر کچھ نہ کچھ لکھیں جس سے بحث شروع ہو اور زور پکڑے۔

 

میں کوشش کرتی ہوں کے جو معاشرے کے مسئلے ہیں انہیں اپنے ذاتی تجربات سے جوڑ کر بات کروں کہ میں ان سے گزری ہوں۔ جیسا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل بسوں میں ہراسانی کی بات کی، اس طرح بہت سارے مسائل سامنے آئے تھے جو پبلک میں ہراساں کیے جانے کے کیسز ہیں۔ جب میں اپنا ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتی ہوں، لوگ اس کو سمجھتے ہیں پھر لوگ اپنے تجربات کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے مسئلے زیرِ بحث آتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ان کے جیسے پڑھے لکھے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان مسائل پر بات کریں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ جیسے ہی بہتر محسوس کریں گی تو ٹوئٹر پر واپس آنے کے بارے میں سوچیں گی۔
’لوگوں کو سوال اٹھانے کا پورا حق ہے، مجھ سے سوال کرنے کا پورا حق ہے لیکن میری ذاتی زندگی کو اس طرح کھلم کھلا زیر بحث نہ لایا جائے۔‘

شیئر: