Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لڑکی پکائے تو لڑکا گاڑی چلائے

لڑکیوں کو بچپن سے ہی کھانا بنانا سکھایا جاتا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
جب نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا تو لگتا تھا کہ دو چار تحریروں کے بعد یہ کہانی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ شروع سے رجحان سماجی ناہمواریوں کی نشاندہی کی طرف تھا اس لیے یہی لگتا تھا کہ ایک ہی معاشرے کی کتنی پرتیں نکال پائیں گے۔ تھک جائیں گے۔ لیکن یہ معاشرہ تو پیاز نکلا۔ بظاہر سادہ سی شکل کی سبزی ہے لیکن چھلکا لافانی ہے۔ ہر تہہ پچھلی سے زیادہ جاندار نکلتی ہے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ تو کسی کے لیے گھر پر آگ سینکنے والی بات ہے۔ لیکن آپ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری جگ بیتی بھی ہڈ بیتی نکلتی ہے۔ آج ایک اور سہی۔۔۔
یوں تو بار بار بتانا بچگانہ لگتا ہے لیکن کچھ پڑھنے والے نئے بھی ہیں۔ آخر ہم کہاں کی عصمت چغتائی ٹھہرے کہ ہر کسی کے ذہنوں میں روز اول کی طرح نقش ہوں۔ قریب ساڑھے چار سال سے غریب الوطنی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ خدا لگتی یہی ہے کہ یہاں زندگی سے کوئی گلہ نہیں۔
ہر قسم کی آسائش میسر ہے۔ نل کا پانی بھی میٹھا ہے۔ ہوا میں دھویں کی آمیزش نہیں۔ کوئی آتے جاتے نہیں گھورتا۔ ہمیں کیا کوئی کسی بھی عورت کو نہیں گھورتا۔ ہر قسم کی شخصی آزادی بھی ہے۔ جب جی کیا گھر آئے۔ جب جی کیا گھر سے نکلے۔ ہم سے بنجارہ فطرت شخص کو اس سے بڑھ کر کچھ چاہیے بھی نہیں تھا۔
جیسا کہ آپ پچھلے باب میں پڑھ کر آئے ہیں کہ ہمیں بچپن سے ہی کھانے پینے کا بہت شوق تھا۔ اس باب میں آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ ہمیں شروع سے ہی کھانا بنانے سے بھی شغف تھا۔ زبان کا چٹخارہ اس بات کا متقاضی تھا کہ جوں ہی قد چولہے سے بلند ہو کچھ نہ کچھ تلنے لگیں۔

لڑکے کو کھانا بنانا پڑ جائے تو اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

امی جان کو جہاں ہم سے کئی شکایتیں تھیں وہیں یہاں سے مکمل تسلی تھی۔ انہیں اس بات کا اطمینان تھا کہ کل کو سسرال میں کھانا پکانے کے نام پر ذلیل نہیں کرائے گی۔ کہتی تھیں کہ لڑکیوں کو اتنا ضرور آنا چاہیے کہ پیٹ بھر سکیں۔ انہوں نے تو ہمیں سلائی کڑھائی سکھانے کی کوشش بھی کی کہ آگے جا کر کام آتی ہے۔ لیکن ہم اس معاملے میں اس قدر کند ذہن نکلے کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے سے آگے نہ بڑھ پائے۔
امی جان کو شوق تھا کہ ہمیں ہر قسم کے امور خانہ داری میں مشاق کر دیں کہ آنے والی زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
ہمارا ایک بھائی بھی تھا۔ خدا عمر لمبی کرے ابھی بھی ہے۔ بھائی کھیلنے لوٹنے کا شوقین تھا۔ کبھی کبھی آس پڑوس کے بچوں کو پیٹ بھی ڈالتا تھا۔ ہم فیکٹری کی کالونی میں رہتے تھے۔ تمام دن فیکٹری کے چوکیدار کے ساتھ بیٹھا سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کو تکتا رہتا تھا۔ شاید اسی لیے گاڑی چلانا بھی جلد ہی سیکھ گیا۔ ضروری تھا۔ زندگی کی گاڑی بھی چلانے لگا۔ سموسے تلنے کا بھی شوق رکھتا تھا۔ لیکن اس شغل پر زیادہ حوصلہ افزائی نہ مل پائی اسی لیے بس سموسے تلنے تک ہی محدود رہا۔
وقت کا دھارا بہتا رہا۔ سمے پھسلتا رہا۔ اب ہم دونوں ان ہی زندگیوں میں ہیں جن کے لیے ہمیں تیار کیا جا رہا تھا۔ ہم دونوں عملی زندگیوں میں داخل ہو گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب بھائی کو کھانا بنانا نہیں آتا اور ہمیں گاڑی چلانی نہیں آتی۔ اس کو اپنا ادھڑا ہوا کالر سینا نہیں آتا۔ ہمیں گاڑی کا ٹائر بدلنا نہیں آتا۔ 

مردوں کو کھانا بنانا اور لڑکیوں کو ٹائر بدلنا نہیں آتا۔ فوٹو: اے ایف پی

زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ ہم دونوں عملی زندگی کے لیے آدھے تیار ہی کیے گئے۔ جس طرح کھانا بنیادی ضرورت ہے اسی طرح گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا سیکھنا بھی آج کل کی زندگی کے اہم اجزا ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی عملی زندگی کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا۔ جب مردوں کو امور خانہ داری سنبھالنے پڑ جائیں تو ایک جوئے شیر کے مترادف بات ٹھہرائی جاتی ہے۔ خیر اب تو بہت سی لڑکیوں کو بھی اس چیز کی تربیت نہیں دی جاتی۔ کھانا بنانا ایک کمتر چیز ٹھہرائی جاتی ہے کہ یہ کام تو کوئی بھی کر لے۔ لیکن جب کرنا پڑ جائے تو ہر کوئی نہیں کر پاتا۔ ملک سے باہر رہنے والے اکثر لوگوں کو سب سے زیادہ اپنے ملک کے کھانے ہی یاد آتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود سے کچھ کر نہیں پاتے۔
اس طرح اگر کسی عورت پر ایسی صورتحال درپیش ہو جائے کہ اسے گھر کے مرد کا فرض نبھانا پڑے تو اس پر بھی آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج تو عام ہونے لگا ہے لیکن ان کی نوکری آج بھی محض ایک شغل سمجھی جاتی ہے جو بس مصروف رہنے کا بہانہ ہے۔ ان کو اس بات کے لیے قطعی تیار نہیں کیا جاتا کہ اگر کل کو گھر خود چلانا پڑ جائے تو وہ اتنی مضبوط ضرور ہوں کہ کسی رشتے دار کی طرف مدد کی طرف نہ دیکھیں۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتیں معاشی دھارے میں پوری طرح شامل نہیں ہوتیں۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ جن مغربی معاشروں کو ’انحطاط‘ کا شکار قرار دیا جاتا ہے وہاں سکولوں میں یہ چیز ایک خاص مضمون ’لائف سکلز‘ کے نام سے پڑھائی جاتی ہے۔ کھانا بنانا، گھر کے چھوٹے موٹے کام سیکھنا، یہ سب سکولوں کے نصاب کا حصہ ہے۔
معاف کیجیے گا آج کا گیان ذرا زیادہ لمبا ہو گیا۔ بس یہ موضوع دل کے قریب ہے نا۔ جب اپنی پھپھی جان کو شوہر کی وفات کے بعد دوسروں کی طرف دیکھتے اور ماموں جان کو ممانی کی وفات کے بعد بغیر استری کے کپڑے پہنے دیکھتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ اس نظام سے ان کی موجودہ حالت کا گلہ کریں۔ اس کا گریبان جھنجھوڑیں۔ واویلہ کریں۔ محبت کے نام پر اپنے بچوں کو خودمختار نہ ہونے دینے والے والدین کو یہ تصویریں دکھائیں کہ حالات سدا ایک سے نہیں رہتے۔ انسان بھی سدا سلامت نہیں رہتے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ سعدیہ بہت شور مچاتی ہے۔ حالانکہ سچ بات یہ ہے کہ اگر آپ بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یوں ہی آواز کا والیم بڑھا دیں۔ کیونکہ مرد اور عورت کی تربیت میں اس بے پر کے فرق نے ہم دونوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ذرا سوچیے گا۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں