Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ لڑکی مردوں جتنا کھاتی ہے

ہمیں بچپن سے ہی کھانے کا بہت شوق تھا۔ جہاں لوگ بچوں کے نہ کھانے کی عادت سے عاجز ہوتے ہیں وہیں ہمارے والدین کا بس نہیں چلتا تھا کہ کھانے کے وقت ہمیں مہمانوں کی نظروں سے بہت دور بھیج دیں۔ نہ صرف کھانے کا شوق تھا بلکہ بہت زیادہ کھانے سے بھی خاصا شغف تھا۔ ایک دفعہ کھانا شروع کر لیتے تو اس وقت تک نہ رہتے جب تک یا تو کھانا ختم نہ ہو جاتا یا ہم لقمہ اجل بننے کے درپے نہ ہوتے۔ 
شاید آپ کو مبالغہ لگے لیکن ہمارے بچپن کا مشہور قصہ ہے کہ 11 برس کی عمر میں ایک شادی کی تقریب میں گئے۔ تب ون ڈش کھلانا نہ صرف میزبانوں کی بلکہ انسانیت کی بھی توہین سمجھی جاتی تھی۔ تقریب کا انعقاد ایک لان میں تھا جہاں کھانے کے قریب کچھ خاص روشنی نہیں تھی۔ عجیب لوگ تھے بھئی۔ جن فانوسوں اور قمقموں کو دلہن کے ارد گرد سجا رکھا تھا ان کی اصل جگہ کھانے کی میز تھی۔ خیر قصہ مختصر جب ہم خوب پیٹ بھر کر فارغ ہو گئے تو کچھ دیر میں یہ معلوم ہوا کہ یہاں تو چکن روسٹ بھی موجود ہے۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کھانے کی مہم پر ازسر نو جٹ گئے۔
اس کے بعد جو گھر والوں نے درگت بنائی وہ مت پوچھیے۔ آج تک اس قصے کو ہم سے منسوب کیا جاتا ہے اور خوب چٹخارے سمیٹے جاتے ہیں۔ چلیے ہمارا فوڈ جہاد کسی کام تو آیا۔ 

ایک لڑکی سالن میں ایک بوٹی کیوں کھائے؟

یوں تو ہمارا دور کا حافظہ کچھ ایسا اچھا نہیں لیکن اگر سچ کہیں تو کل پرسوں کیا کھایا تھا وہ بھی یاد نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بچپن کی کچھ باتیں آج بھی یوں یاد ہیں جیسے ابھی بھی کانوں میں گونج رہی ہوں۔ ابھی بھی رشتے کی ایک نانی جان کے الفاظ ذہن میں آتے ہیں ’اے، یہ لڑکی تو مردوں جتنا کھاتی ہے۔‘
یہ بات اس وقت یہی لگتی تھی کہ ہم زیادہ کھاتے ہیں۔ وہ تو خدا کی کرنی تھی کہ ہم اتنا سب ٹھونسنے کے بعد بھی سنگل پسلی ہی تھے۔ اس لیے امی جان کو ہماری بسیار خوری کچھ خاص کھلتی نہیں تھی۔ لیکن نانی جان کا یہ جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔
ہم نے جب بھی اپنے ارد گرد دیکھا تو عورتوں کو کم کھاتے ہی دیکھا۔ بچپن میں ان باتوں کا احساس نہیں ہو پاتا۔ وقت گزرتا ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ انسانی رویے مزید سمجھ آنے لگتے ہیں۔ بچپن کی باتوں کا سرا ملنے لگتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہمارے ہاں بھی ہماری والدہ کم ہی کھاتی تھیں لیکن ہمیں کبھی کھانے پینے پر نہیں روکتی تھیں۔ یہ تفریق ہم نے عمر اور تجربے کے ساتھ دیکھی کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا تھا جہاں بیٹیوں کو کم کھانا دیا جاتا تھا لیکن انداز وہی تھا۔ 

امی جان کو ہماری بسیار خوری کچھ خاص کھلتی نہیں تھی۔

ہمارے ہاں یہ بات مسلمہ حقیقت سمجھی جاتی ہے کہ عورتوں کو کھانے پینے سے رغبت نہیں ہوتی۔ وہ کم کھاتی ہیں۔ سبزیاں پسند کرتی ہیں۔ انہیں گوشت اچھا نہیں لگتا۔ زیادہ کھانا یا کھانے سے رغبت رکھنا مردانہ خصلت سمجھا جاتا ہے۔ اور جس عورت کی عادتیں مردوں سے ملنے لگیں اسے کیا سمجھا جاتا ہے؟ چلیے رہنے دیجیے۔
نہ لڑکیاں زیادہ کھانا پسند کرتی ہیں نہ کھیلنا کودنا۔ سکولوں کالجوں میں بھی ان کے کھیل کود پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو لڑکوں کا خاصہ ٹھہرتی ہے۔ خیر جہاں بھاگتی لڑکی کا جسم بیمار ذہنوں کے تخیل کا سامان پیدا کرے وہاں کھیل کود کیا ہو گا۔ بچپن سے ہی نہ ڈھنگ سے کھایا جاتا ہے نہ کھیلا جاتا ہے جس کی وجہ سے تمام عمر وہی عادت قائم رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہڈیوں اور پٹھوں کے امراض عورتوں میں زیادہ عام ہیں۔ یہاں ایک ڈاکٹر صاحب بھی یاد آ گئے جو کہا کرتے تھے کہ عورتوں کا کیلشیم لیول فطری طور پر کم ہوتا ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ وہ فطرت معاشرے کی دین تھی۔ 
شاید ہماری بہت سی باتیں آپ کو معاشرے پر بہتان لگیں۔ افسانہ لگیں۔ لیکن اگر غور کیجیے تو معلوم ہو کہ اس رویے کو پنپنے میں کئی صدیاں لگیں ہیں۔ ہم نے اس سوچ کو مزید پروان چڑھایا۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ بچپن میں بہت سی لڑکیاں ہمارا مذاق اڑاتی تھیں کہ سعدیہ بہت کھاتی ہے۔ اس وقت برا لگتا تھا۔ اب خیال آتا ہے کہ ان کا قصور نہیں تھا۔ ان کو نسوانیت کی یہی تعریف بتائی گئی تھی۔

ہمارے ہاں یہ بات مسلمہ حقیقت سمجھی جاتی ہے کہ عورتوں کو کھانے پینے سے رغبت نہیں ہوتی۔

جس طرح مردانگی جب انسانی دماغ سے باہر ناچنے لگے تو زہریلی ہو جاتی ہے، سب کا گلا گھونٹنے لگتی ہے اسی طرح نسوانیت کی یہ خود ساختہ اور فرسودہ تعریف کو بھی اپنی موت آپ مرنا ہو گا۔ ایک لڑکی سالن میں ایک بوٹی کیوں کھائے؟ خود کو اس خیال سے سرشار کیوں سمجھے کہ وہ کم کھا کر زیادہ مہذب لگتی ہے؟ کھیل کود سے خود کو دور کیوں رکھے کہ لڑکیاں تو بیٹھ کر مہکتی چہکتی ہی اچھی لگتی ہیں؟ مرد بسیار خوری اور عورتیں کم کھانے کی وجہ سے عمر کے ایک حصے میں جا کر کیوں صحت سے ہاتھ دھوئیں؟ رات کے کھانے پر مرد کے آگے ڈونگا پہلے اس لیے کیوں کیا جائے کہ وہ سارا دن کام کرتا ہے جب کہ اس کے ساتھ کی عورتیں نہ صرف کما رہی ہیں بلکہ گھر کے سب کام بھی بخوبی انجام دے رہی ہیں؟
یہ جو آپ کے اردگرد ادھیڑ عمر خواتین کو غذائی کمی اور دماغی ٹینشن کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں لاحق ہیں کبھی ان کے بارے میں سوچیے گا۔ کبھی کھانے کی میز پر ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچنے والے ڈونگے کو دیکھیے گا۔ اپنی والدہ کا وہ وقت یاد کیجیے گا جب سالن ان تک پہنچنے تک اس میں بوٹیاں ختم ہو جاتی تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ مجھے تو شوربا پسند ہے۔ اب ان کی ذیابیطس اور بلند فشار خون کی دوائیں دیکھیے گا۔ 
اور ہو سکے تو اس گستاخی پر ہمیں معاف کر دیجیے گا۔ ہمیں مردوں کی طرح ہر بات صاف کہہ دینے کی عادت ہے۔

شیئر: