Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گواسکر کے آؤٹ ہونے پر سری نگر میں تماشائیوں کی عید‘

شیرِ کشمیر سٹیڈیم سری نگر میں منعقدہ ون ڈے میچ میں ایسا کیا عجب ہوا،جس نے دونوں ٹیموں کوحیران کردیا۔ فوٹو: میل آن لائن
 13اکتوبر 1983 کو انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے مابین شیرِ کشمیر سٹیڈیم سری نگر میں منعقدہ ون ڈے میچ میں، عجب ماجرا ہوا،جس نے میزبان اور مہمان ٹیم دونوں کوحیران کردیا۔ ویسٹ انڈین ٹیم کو دیارِغیر میں تماشائیوں کی اس قدر سپورٹ میسر آئی کہ اسے لگا جیسے وہ اپنے ملک میں کھیل رہی ہے۔ دوسری طرف انڈین ٹیم جس نے چند ماہ پہلے ورلڈ کپ فائنل میں ویسٹ انڈیز کو چت کیا تھا ،اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر تماشائی اس کی مخالفت پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟
اصل میں یہ کشمیر میں انڈیا کے جبر کا ردعمل تھا، جس نےکشمیریوں کو سات سمندر پار سے آئی ٹیم کی حمایت پر ابھارا۔
 سری نگر میں پہلی دفعہ بین الاقوامی کرکٹ میچ ہورہا تھا، اس لیے بھی عوام بہت پرجوش تھے لیکن ان کے جذبے کی سمت انڈین کھلاڑیوں کے لیے پریشان کن تھی۔ 
میچ شروع ہونے سے پہلے انڈین ٹیم ورزش کے لیے میدان میں آئی تو تماشائیوں نے ان پرآوازے کسے۔عظیم بیٹسمین سنیل گواسکر نے اپنی کتاب  'Runs and Ruins'میں لکھا ہے کہ ٹیم کے ہارنے پر تماشائیوں کی ہوٹنگ سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ سلسلہ میچ سے بھی پہلے شروع ہوگیاجو حیرت انگیز بات تھی۔گواسکر نے لکھا ہے کہ لوگوں کی طرف سے پاکستان کے حق میں نعرے بازی نے بھی انھیں حیرت زدہ کردیا کیونکہ میچ پاکستان سے نہیں ویسٹ انڈیز سے ہورہا تھا۔

گواسکر نے لکھا ہے کہ لوگوں کی طرف سے پاکستان کے حق میں نعرے بازی نے انھیں حیرت زدہ کردیا. فوٹو:انڈیا ٹوڈے

ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ اپنی ٹیم کی پذیرائی پر حیران تھے،ان کے بقول، یوں  محسوس ہو رہا تھا جیسے میچ ویسٹ انڈیز میں ہے ۔
 اس مخاصمانہ فضا کادباﺅانڈین کھلاڑیوں نے محسوس کیا ، جارح مزاج سری کانت سست کھیلے، بہت سی گیندیں ’مِس ‘ کیں۔91 گیندوں پر 40 رنز بنائے اور ایک دفعہ بھی گیند باﺅنڈری لائن سے باہر نہ بھیج سکے۔ 
 میلکم مارشل کی گیند پر گواسکر 11 رنز بنا کر آﺅٹ ہوئے تو تماشائیوں کی گویا عید ہوگئی ،انھوں نے خوشی سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دوسرے انڈین بیٹسمینوں کے آﺅٹ ہونے پر بھی شادیانے بجائے اور ویسٹ انڈین بولروں کو ہلا شیری دی۔ ویسٹ انڈین سپنر راجر ہارپر جن کا یہ پہلا میچ تھا، ان کی بولنگ کھیلنا ہی بیٹسمینوں کے لیے مسئلہ بن گیا۔ انڈین ٹیم 176رنزبناکر آﺅٹ ہوئی ۔وقفے کے دوران درجن بھر افراد نے گراﺅنڈ میں داخل ہو کر پچ کھودنے کی کوشش کی، جس سے خاصی بدمزگی ہوئی ۔ 
ویسٹ انڈیز کی اننگز کے آغاز کے لیے اوپنر گورڈن گرینج اور ڈیسمنڈ ہینز میدان میں اترے تو انڈین فیلڈروں اور بولروں کی دوہری آزمائش شروع ہوئی۔ایک طرف دنیا کی بہترین اوپننگ جوڑی تھی تو دوسری طرف تماشائیوں کا معاندانہ رویہ۔ ویسٹ انڈیز کے سکور میں اضافے پر لوگ خوشی کا اظہار کرتے ،ویسٹ انڈیز کا کوئی کھلاڑی آﺅٹ نہ ہوا ،اس لیے انھیں کسی صدمے سے دوچار نہ ہونا پڑا۔ 
ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کوئی وکٹ گنوائے بغیر108رنز بنالیے توموسم کی خرابی کے باعث میچ روکنا پڑاجو بعد میں شروع نہ ہوسکا ۔ مہمان ٹیم جس کی میچ پر گرفت بہت مضبوط تھی ،اسے بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر فاتح قرار دے دیا گیا۔اس پر انڈین کھلاڑیوں نے سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ آخرکار اس اذیت کا خاتمہ ہوا ،جس کا آغاز میچ شروع ہونے سے پہلے ہوگیا تھا۔

ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ اپنی ٹیم کی پذیرائی پر حیران تھے. فوٹو کرک ٹریکر

ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ویسٹ انڈین بیٹسمین کے وننگ شاٹ پر تماشائیوں کے خوشی سے بے قابو ہونے کا منظر، انڈین کھلاڑیوں کے لیے سوہان روح ہوتا لیکن اس ناگوار صورت حال  کا سامنا کرنے سے موسم نے انھیں بچا لیا۔
 ایک نوجوان نے گواسکر کو دیکھ کر عمران خان کا پوسٹر لہرایا۔اس پر گواسکر نے’ تھمب اپ‘ سے جواب دیا۔ تھوڑی دیر بعد نوجوان نے پھر پوسٹر لہرایا تو گواسکر نے پہلے پوسٹر ، پھر تماشائیوں،اس کے بعد آسمان اور آخر میں گراﺅنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب لوگوں کو کسی انڈین کھلاڑی کا عمل پسند آیا۔میچ کے دوران لوگوں نے زبانی کلامی ہی اپنا غصہ نہیں نکالا بلکہ کھانے پینے کی اشیاءفیلڈروں پر پھینک کر بھی جذبات کا اظہار کیا۔
سٹیڈیم میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جن کے ہاتھ میں پاکستانی پرچم تھا اور وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ بہت سوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے پوسٹر ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے۔
 سٹیڈیم سے باہر چنار کے ایک درخت پر کشمیریوں کے پسندیدہ ترین کھلاڑی عمران خان کی بڑے سائز کی تصویرلٹکائی گئی تھی ۔

شیر کشمیر سٹیڈیم میں تماشائیوں نے عمران خان کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ فوٹو: کرک انفو

 جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے میچ کے بعد کشمیری عوام کے رویے پر انڈین ٹیم سے معذرت کی۔
کشمیریوں نے ویسٹ انڈیز کی جیت کا جشن منایا۔ پچ کھودنے کے الزام  میں گرفتار نوجوان ہیرو بن گئے۔ ان میں سے چند ایسے بھی تھے جو آگے چل کر آزادی کی تحریکوں کے رہنما بنے۔ 
 سب سے نمایاں نام حریت کانفرنس کے ممتازرہنما شبیر شاہ کا ہے ، ایک طویل عرصہ جیل میں گزارنے کی وجہ اسےکشمیر کا نیلسن منڈیلا کہا جاتا ہے۔ شوکت بخشی، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرکردہ رہنماکی صورت میں سامنے آیا۔مشتاق الاسلام ایک جنگجوگروپ کا چیف کمانڈربنا ۔
نومبر 2011 میں سری نگر کی ایک عدالت نے واقعے کے 28برس بعد ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا ۔
 ممتازبرطانوی رائٹر پیٹر اوبورن نے پاکستان کرکٹ پر اپنی کتاب Wounded Tiger: A History of Cricket in Pakistan میں کشمیر میں کرکٹ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس میچ کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ان کے بقول، ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کشمیری اس میچ کو اپنی جدوجہد آزادی کا سنگ میل سمجھتے ہیں۔

شیئر: