Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے تاریخی مقامات سیاحوں کے منتظر

سالانہ 100ملین سیاحوں کے استقبال کے لیےانتظامات مکمل کرلیے۔
سعودی عرب نے سالانہ 100ملین سیاحوں کے استقبال کے لیے تاریخی اور تفریحی مقامات پر انتظامات مکمل کرلیے۔
فروغ سیاحت کی حکمت عملی کی منظوری اور آن لائن سیاحتی ویزوں کے اجراکا سلسلہ شروع کرنے کے بعد سے مختلف ممالک کے سیاحوں کے گروپ سعودی عرب پہنچنے لگے۔
الشرق الاوسط کے مطابق سعودی عرب 2030 تک سالانہ 100ملین سیاحوں کی آمد کا ہدف مقرر کرچکا ہے۔ سعودی عرب پوری دنیا میں سب سے زیادہ سیاحوں کا استقبال کرنے والے 5ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہے۔
سعودی وژن 2030 کے مطابق سیاحوں کی دلچسپی کے لیے تاریخی مقامات پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ ان میں نمایاں ترین یہ ہیں۔

العلا میں اہم ثقافتی،تاریخی اور تمدنی آثار پائے جاتے ہیں۔

 الدرعیہ کااسلامی عجائب گھر
الدرعیہ اہم سیاحتی اور ثقافتی مقام ہے۔ یہاں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا اسلامی عجائب گھر بنایا گیا ہے۔ الدرعیہ میں مٹی کے گھروں پر مشتمل شہر سجایاگیا ہے۔ کنگ سلمان لائبریری، تجارتی مراکز، مارکیٹیں ، ریستوران اور تقریبات کے مراکز بنائے گئے ہیں۔ الدرعیہ سیاحتی ثقافتی منصوبے کے لیے 15 لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبہ مختص کیا گیا ہے۔
 العلا کے تاریخی آثار
العلا مدینہ منورہ گورنریٹ کی کمشنری ہے۔ یہاں سعودی عرب کے اہم ثقافتی ، تاریخی اور تمدنی آثار پائے جاتے ہیں۔ بعض ابھی تک زیر زمین ہیں جبکہ بہت سارے آثار زمین کے اوپر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ العلا میں سیاحوں کے لیے ہر طرح کے انتظامات ہیں۔ العلا رائل کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔
العلا جزیرہ عرب کے مغرب میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً 300 کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ العلا شہر کے شمال میں الحجرکے آثار قدیمہ موجود ہیں۔ انہیں مدائن صالح کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔یہاں چٹانوں کو تراش کر بنائے گئے قلعہ نما مکانات اب تک محفوظ ہیں۔

الاخدود کی تاریخ 2020 برس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔

 الاخدود، تاریخی قریہ
الاخدود سعودی عرب کا ایک تاریخی قریہ ہے۔ اسکی تاریخ 2020 برس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ یہاں خندقیں جو اس دور کے آتشیں عقوبت خانے کہے جاسکتے ہیں موجود ہیں۔ یہاں ٹوٹی پھوٹی ہڈیاں اور راکھ کے ڈھیر محفوظ ہیں۔ قدیم دور کے نقوش کے بقایا جات بھی ہیں۔ چٹانوں پراژدھوں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔
 اونٹوں، گھوڑوں کی تصاویر چٹانوں کو تراش کر بنائی گئی ہیں جبکہ انسانوں کے ہاتھ بھی چٹانوں پر بنے نظر آتے ہیں۔ یہاں دیو ہیکل پتھر اور بھاری بھرکم چکیاں بھی موجود ہیں۔ نمایاں ترین آثار میں ایک مسجد کے کھنڈر بھی ہیں۔
الاخدود قریہ سیاحتی اور تاریخی مقامات سے معمور ہے۔ اسکے پہلو میں گورنر کا تاریخی محل ، حمیٰ کے کنویں اور وادی نجران کے کنارے تاریخی قریوں کی ایک بیلٹ پائی جاتی ہے۔
الاخدود قریہ نجران سے 5 کلو مربع میٹر کے رقبے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ 2000 برس سے کہیں زیادہ پہلے زندگی گزارنے والے لوگوں کی خاموش داستانوں کا مرکز ہے۔ ان کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی ہے۔

 نجران میں کئی تمدن قائم ہوئے اور ختم ہوئے۔

 نجران کا تاریخی عجائب گھر
 نجران میں’ المسند‘ رسم الخط میں تحریریں اور نقوش ہیں۔ المسند رسم الخط ’حمیر‘ ریاست میں رائج تھا۔ یہ ریاست 115 اور 114 قبل مسیح میں پائی جاتی تھی۔ یہاں قدیم مصری زبان ہیرو گلیفی کے نقوش بھی ملے ہیں۔ یہاں کوفی رسم الخط میں موجود تحریریں بھی ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ کے عہد اول سے ہے۔ غالباً یہاں سب سے اہم گھوڑوں ، اونٹوں ، ہرنوں اور شتر مرغ کی شکلیں بھی منعکش ہیں۔ علاوہ ازیں دستی مصنوعات بھی ملی ہیں جن سے حجری دور کے انسانوں کے رہن سہن کا پتہ چلتا ہے۔
 نجران کے علاقے میں کئی تمدن قائم ہوئے اور ختم ہوئے۔ بعض کا تعلق حجری دور سے ہے۔ یہاں اسکالرز کو 10 لاکھ برس سے کہیں زیادہ پرانے انسانی تمدن کے شواہد ملے ہیں۔ یہاں قدیم جھیلوں کے نشانات بھی پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربع الخالی نامی عظیم الشان صحرا کی آغوش میں واقع یہ علاقہ کبھی بیحد اہم رہا ہوگا۔ یہی وجہ ہے جو قدیم عرب ریاستوں کے فرمانروا یہاں کے سبز نخلستانوں پر اپنا اقتدار جمانے کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے۔

دومتہ الجندل میں قلعہ مارد جیسے اہم آثار پائے جاتے ہیں۔

دومتہ الجندل 
دومتہ الجندل شمالی سعودی عرب کی ایک کمشنری ہے۔ یہاں مسجد عمر بن خطاب اور قلعہ مارد جیسے اہم آثار پائے جاتے ہیں۔شہر کے مشرق میں دومتہ الجندل نامی جھیل بھی سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔
 تاریخی جدہ شہر
جدہ کا تاریخی علاقہ اہم سیاحتی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے مقامی لوگ جدہ البلد کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ جدہ شہر کے وسط میں واقع ہے۔ اسکی تاریخ اسلام کی آمد سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔یہاں جدہ کی فصیل، تاریخی محلے المظلوم،الشام ، الیمن اور البحر واقع ہیں۔ یہاں تاریخی مساجد موجو ہیں۔ تاریخی بازار بھی ہے۔ اسے 21جون 2014ءمیں عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

جدہ کا تاریخی علاقہ اہم سیاحتی مرکز ہے۔

تاروت کا قلعہ
یہ سعودی عرب کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ القطیف کمشنری کے تاروت جزیرے میں ہے۔ اس کی تاریخ 1500 برس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑی پر بنایا گیا ہے۔ خیال کیاجاتا ہے کہ اس پہاڑی کے نیچے ملکہ عشتار کا پوجا گھر واقع ہے۔ یہ سامری ریاست کی ایک ملکہ تھی۔
 دیگر تاریخی مقامات میں وسطی سعودی عرب میں واقع اشیقر قدیم آثار سے مالا ما ل ہے۔ یہ کچی عمارتوں کا قریہ ہے۔ یہاں نخلستان بڑے دلکش ہیں۔ یہ نجد کا قدیم ترین قریہ مانا جاتا ہے۔ اس قریہ نے زمانہ جاہلیت اور پھر اسلام کی آمد کے بعد شہرہ آفاق شاعر پیدا کئے۔

تاروت کا قلعہ ایک پہاڑی پر بنایا گیا ہے۔

ذی عین کا تاریخی قریہ باحہ ریجن میں واقع ہے۔ یہ تاریخی تمدن سے مالا مال ہے۔ اس کا محل وقوع انتہائی اہم ہے ۔یہاں دو اور چار منزلہ مکانات بنے ہوئے ہیں۔مسجد بھی ہے۔
یونانی جزیرے بیلو بونیز کی طرز پر الغاط کا تاریخی قریہ میں عجائب گھر اور تاریخی مراکز موجود ہیں۔ الغاط کمشنری کو اس کی بدولت تاریخی قریے جدید خطوط پر استوار کرنے کا عالمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
 ایک اور تاریخی قریہ تیما سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اسکے محل اور تاریخی فصیلیں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔یہاں کے باشندوں کی زندگی کا دارو مدار کھیتی باڑی پر ہے۔ یہاں کی عظیم الشان تاریخی فصیل 10میٹر اونچی ہے۔ الحمراءالرضم اور الابلق محل قابل دید ہیں۔ الابلق محل دنیاکا قدیم ترین ہوٹل مانا جارہاہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: