Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دنیا لکنت سے متاثر افراد سے کتراتی ہے‘

 سٹیمرنگ سرکل کے ممبران ہفتے میں ایک بار اکھٹے ہوتے ہیں۔ فوٹو: فیس بک
شیرازاقبال ایک ٹی وی چینل کے ساتھ بطور ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایکسپرٹ منسلک ہیں۔ وہ اپنی ملازمت سے بہت مطمئن ہیں۔ لیکن اس اطمینان سے پہلے انہوں نے بہت مشکل وقت گزارا۔
انہیں نوکری حاصل کرنے کے لیے 70 سے زائد انٹرویوز دینے پڑے اورہر جگہ ان کی اہلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ذہین نہیں یا انہیں کام پر عبور نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بات کرتے ہوئے ہکلارہے تھے۔
 شیراز اقبال، جو بچپن سے ہکلاہٹ کا شکار ہیں، کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ دنیا ہکلاہٹ کے شکار افراد کو کم عقلمند سمجھتی ہے اور اسی لیے نوکری دینے سے کتراتی ہے۔

شیراز کے بقول ان کی زیادہ تر توجہ پبلک سپیکنگ پر ہوتی ہے۔ فوٹو: سٹیمرنگ سرکل فیس بک

ان کا کہنا ہے کہ سکول اور اعلیٰ تعلیم کے دوران انہیں ہکلاہٹ سے ذیادہ دشواری نہیں ہوئی اور ان کے گھر والوں اور دوستوں نے کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا، لیکن جب وہ نوکری حاصل کرنے کے لیے کاروباری اداروں میں گئے تب انہیں احساس ہوا کہ ہکلاہٹ کے باعث نوکری حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان میں نوکری نہ ملنے سے تنگ آ کر شیراز متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں انہیں ہکلاہٹ کے شکار ایسے افراد ملے جنہوں نے اپنا ایک باقاعدہ گروپ تشکیل دیا ہوا تھا۔ اس گروپ کے اراکین ایک دوسرے کی مدد کرتے اورحوصلہ افزائی کرتے تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شیراز نے بتایا کہ جب وہ 2017 میں پاکستان واپس آئے تو انہوں نے کراچی میں ایسا کوئی گروپ تلاش کیا لیکن یہاں پر ہکلاہٹ کے شکار افراد کی مدد اور ان کو سکھانے کے لیے کوئی فورم موجود نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر شیراز نےخود ایسا پلیٹ فارم بنانے کا سوچا اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

گروپ میں شامل افراد کی تعداد 60 سے زائد ہو گئی ہے۔ فوٹو: سٹیمرنگ سرکل فیس بک

’فیس بک پر کچھ گروپس بنے ہوئے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی آپس میں ملتا نہیں تھا، میں نے وہاں پر لوگوں کو اپنے آئیڈیا کے بارے میں بتایا اور انہیں ملنے پر آمادہ کیا۔‘
’سٹیمرنگ سرکل‘ کے نام سے بنائے گئے اس گروپ کی پہلی میٹنگ 2018 میں شیراز کے گھر پر ہی منعقد ہوئی۔
آج اس گروپ میں شامل افراد کی تعداد 60 سے زائد ہوگئی ہے جن میں زیادہ تعداد نوکری پیشہ افراد کی ہے لیکن کچھ طالب علم بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ افراد ہفتے میں ایک بار اکھٹے ہوتے اور اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
شیراز کے بقول ان کی زیادہ تر توجہ پبلک سپیکنگ پر ہوتی ہے اس کے علاوہ سپیچ تھراپی کے سیشن بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

شیراز کے مطابق معاشرے میں ابھی تک ہکلاہٹ کے شکار افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔ فوٹو: سٹیمرنگ سرکل فیس بک

شیراز کا کہنا تھا کے ان کے گروپ میں شامل لوگوں کے تاثرات سے یہی پتا چلتا ہے کہ معاشرے میں ابھی تک ہکلاہٹ کے شکار افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
’یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب طالب علم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے اساتذہ اور ساتھی اب بھی ہکلانے پرانکا مذاق اڑاتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: