Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانپ تو پکڑا گیا مگر شیر کی جان نہ بچائی جا سکی

تاج محل کے باہر ہوا صارف کرنے کے لیے مشینیں لگائی گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں ان دنوں مہاراشٹر میں حکومت سازی کے پیچ و خم اور بابری مسجد، رام مندر فیصلے کے حوالے سے خبریں شہ سرخیوں میں ہیں لیکن چند ایسی خبریں بھی ہیں جو شاید کم لوگوں کی نظروں سے گزریں ہیں۔
آئیے چند ایسی ہی خبروں پر نظر دوڑاتے ہیں۔

تاج محل کے دروازے پر ایئر پیوریفائر

انڈین دارالحکومت دہلی سمیت ملک کے شمالی شہروں میں فضائی آلودگی گذشتہ دنوں بڑا مسئلہ رہی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے جہاں دہلی میں جفت اور طاق نمبر پلیٹ والی کاروں کے لیے علیحدہ علیحدہ دن مختص کر دیے گئے ہیں وہیں آگرہ میں تاج محل کے دروازے پر ہوا کو صاف کرنے والی مشینیں لگائی گئیں۔
تاج محل کو دیکھنے آنے والے سیاحوں کے لیے ریاست اترپردیش کے آلودگی سے نمٹنے والے محکمے نے تاج محل کے سامنے ہوا صاف کرنے والی دو وینز بھی نصب کی ہیں۔
حکام نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا ہے کہ ہوا صاف کرنے والی مشین آٹھ گھنٹے میں 15 لاکھ مربع میٹر ہوا کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مشین سے 300 میٹر کے دائرے میں ہوا صاف کی جا سکتی ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے آلودگی میں اضافے اور تاج محل کی سیر کے لیے آنے والے لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ اقدام اٹھایا ہے۔
اب جب تاج محل کی بات چل پڑی ہے تو یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ تین نومبر بروز اتوار تاج محل کے پارکنگ والے حصے میں ایک نو فٹ لمبا اژدہا جسے مقامی لوگ اجگر سانپ کہتے ہیں پايا گیا ہے۔
اس کی خبر سے وہاں موجود لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ڈیوٹی پر تعینات پولیس نے محکمہ جنگلات کو خبر دی لیکن اس وقت تک وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ بہر حال سانپ کو باحفاظت وہاں سے پکڑ کر اس کے فطری ماحول میں چھوڑ دیا گيا۔

شیر کو نہ بچایا جا سکا

اگرچہ اترپردیش میں سانپ کو بچا لیا گيا لیکن مغربی ریاست مہاراشٹر میں گذشتہ دنوں ایک شیر کو نہیں بچایا جا سکا۔

سانپ کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا گیا مگر شیر کو نہ بچایا جا سکا۔ فوٹو: وائلڈ فیسوس ڈاٹ او آر جی

یہ شیر مہاراشٹر کے چندر پور ضلعے میں چٹانوں کے درمیان پھنس گیا تھا اور ایک 35 فٹ کے پل سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی اس لیے وہ کندا گاؤں کے پاس سرنا دریا میں چٹانوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا۔
محکمہ جنگلات نے اسے بچانے کی کوشش کی اور اس کے سامنے پنجزہ بھی رکھا لیکن وہ اس میں داخل ہونے میں ناکام رہا۔ شیر نے جب پنجرے کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی تو اس کے دانت بھی زخمی ہو گئے۔
چندر پور کے علاقے میں محکمہ جنگلات کے سربراہ ایس وی راؤ نے کہا کہ 'جمعرات کی صبح شیر دریا میں مردہ پایا گيا۔‘
ان کے مطابق ’بدھ کو شیر نے کسی جانور کا شکار کیا تھا اور پھر اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ رات میں شیر کی حرکت پر نظر رکھنے کے لیے محکمہ جنگلات کے کارندوں کو تعینات کیا گیا تھا لیکن انھیں صبح سویرے شیر میں کوئی حرکت نظر نہیں آئی اور پھر شیر کو وہاں سے مردہ حالت میں نکالا گیا۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ موت کا سبب آٹوپسی کے بعد معلوم ہوگا۔

پشکر میلے میں اونٹ کی قیمت محض ایک ہزار روپے

جب جانوروں کی بات آئی ہے تو پشکر میلے کی بات کیوں نہ ہو جائے۔

پشکر میلے میں اونٹوں کی قیمتیں بہت کم ہیں۔ فوٹو: ٹریول لیئر

ان دنوں انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں جانوروں کا ایک بڑا پشکر میلہ لگا ہوا ہے جسے دنیا بھر میں اونٹوں کا سب سے بڑا میلہ کہا جاتا ہے۔
لیکن اس میلے میں جہاں زندگی کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں وہیں اونٹ کی کوئی قدر نہیں ہے اور یہاں بھی انڈیا کی معاشی سست روی نظر آ رہی ہے۔
میلے میں اونٹوں کی فروخت کم ہے یہاں تک کہ ایک اونٹ کی قیمت محض ہزار روپے تک بھی دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے اونٹ پالنے والوں نے میلے میں احتجاج بھی کیا ہے۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق مویشی پالنے والوں کی تنظیم ایل پی پی ایس کے جنرل سیکریٹری ہنونت سنگھ نے کہا کہ 'اگر چہ گذشتہ سال پشکر میلے میں جانوروں کی قیمت بہت خراب تھی لیکن وہ تین سے چار ہزار میں فروخت ہو رہے تھے۔ لیکن اس سال تو اس میں مزید کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اونٹنیاں زیادہ تعداد میں لائے ہیں کیونکہ نر اونٹ فروخت نہیں ہو رہے تھے۔‘
عام طور پر میلوں میں نر اونٹوں کو لایا جاتا تھا اور مادہ کو پیداوار بڑھانے کے لیے رکھا جاتا تھا لیکن اس بار 40 فیصد اونٹ مادہ ہیں۔

جعلی دانشور

انڈیا میں سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔

مارکنڈے کانجو نے ایک ناول نگار کو ’فیک انٹلیکچوئل‘ کہہ دیا۔ فوٹو: ٹویٹر

انھوں نے حال ہی میں انڈیا کے معروف ناول نگار چیتن بھگت کی ایک ٹویٹ پر انھیں 'فیک انٹلیکچوئل' یعنی جعلی دانشور کہہ دیا۔ اس کے جواب میں چیتن بھگت نے انھیں دو جوابات دیے اور پھر سوشل میڈیا پر لوگ دو خیموں میں تقسیم نظر آئے اور انڈیا میں دانشوروں پر بحث شروع ہو گئی۔
در اصل چیتن بھگت کو انڈیا کے خلائی ادارے اسرو نے 'عالمی خلائی ہفتے' کے تحت مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا۔ جس کے بارے میں چیتن بھگت نے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں مدعو کیا جانا ان کی عزت افزائی تھی اور ایک طرح سے یہ ان کے لیے ذاتی طور پر 'چاند پر قدم رکھنے' جیسا تھا۔
اس پر جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ارفان حبیب نامی ایک دوسرے تاریخ دان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ 'فیک انٹیلکچوئل چیتن بھگت کو مہمان خصوصی بنانا بعض لوگوں کی اپنی کم دانشوری کا غماز ہے۔'
جس کے جواب میں پھر چیتن بھگت نے لکھا کہ 'میں دانشور نہیں ہوں۔ مجھے گالی دے دیں لیکن وہ نہ کہیں سر۔۔۔'
در اصل انڈیا میں گذشتہ چند برسوں سے دانشوروں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ تحریک جاری ہے لیکن مارکنڈے کاٹجو اپنے متازعے بیانات کی وجہ سے عموماً شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اس سے قبل وہ اس وقت شہ سرخیوں میں آئے تھے جب انھوں نے سنہ 2012 میں کہا تھا کہ ’90 فیصد ہندوستانی بے وقوف ہوتے ہیں جنھیں مذہب کے نام پر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔‘

شیئر: