Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر طرف تاریکی ہے، گھٹن ہے، دھواں ہے‘

کیا ہر کمزوری کا ملبہ اور فضلہ گذشتہ حکومتوں کے ہی کھاتے ڈلے گا؟
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔۔۔ میاں محمد بخش صاحب نے بالکل صحیح کہا تھا۔ یوں تو انہوں نے اور بھی بہت سی باتیں صحیح کہی تھیں لیکن یہ والی ذرا ہمارے دل کو زیادہ لگتی ہے۔
ہماری عادت ہے کہ دن جتنا بھی کٹھن ہو، ورک لوڈ جتنا بھی زیادہ ہو، ہم بیچ میں ایک گھنٹہ ورزش کا وقت ضرور نکالتے ہیں۔ جم 10 منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ یوں تو بس بھی چلتی ہے لیکن ہم پیدل ہی جاتے ہیں۔ یہاں کون سا سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے یا کسی راہ چلتے کے آوازیں کسنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس لیے ہم پیدل ہی جاتے ہیں۔
انسان جتنا پیدل چلے اتنا ہی بہتر ہے۔ حرکت میں برکت ہے۔ رستہ بھی خوبصورت ہے۔ 
بائی دا وے، آخر ہم آپ کو پیدل چل کر جانے کی تاویلیں کیوں پیش کر رہے ہیں؟ آخر آپ نے کون سا ہمارا بجلی کا بل بھرنا ہے؟ بھرنا بھی ہو تو ہماری بلا سے۔ پتہ نہیں صفائی دینے کی اتنی عادت کیوں پڑ گئی ہے۔ 
چلیے اصل بات بتاتے ہیں۔ 10 منٹ پیدل چلنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں صبح کے نو بجے ہوتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امی اس وقت فارغ ہوں گی۔ لہذا ہم انہیں فون کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس کرنے کی کوئی خاص بات ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں ارد گرد کے چٹپٹے قصوں میں کوئی دلچسپی ہے۔ نہ ہی کوئی ایسی بات کرنی ہوتی ہے کہ جس کو کیے بغیر کاروبار زندگی رک جائے۔
نہ ہمیں ہر بات انہیں سنانے کی عادت ہے اور نہ ہی انہیں سننے میں کوئی دلچسپی ہے لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ بھلے اگلا شخص خاموش بھی بیٹھا ہو تو احساسات و محسوسات وہی ہوتے ہیں کہ جیسے سردیوں کی لمبی راتیں باتیں کر کے مختصر کر دیں ہوں۔
ہمیں بس اس احساس سے ہی ٹھنڈ پڑ جاتی ہے کہ امی فون پر ہیں۔ ان کا دل ماں کا دل ہے۔ بس ہیلو سن کر ہی خوش ہو جاتا ہے۔ ماں بیٹی کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے، لفظوں کی قید سے عاری۔
شروع میں مائیں بیٹیوں کو پالتی ہیں۔ پھر وہ ان کی سہیلیاں بن جاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مائیں اپنی بیٹیوں کی بیٹیاں بن جاتی ہیں۔ ہمارا اور ہماری امی کا رشتہ ابھی دوسری منزل کا ہے۔
جمعے کا دن عام دنوں سے زیادہ مصروف ہوتا ہے۔ آج کالم بھی لکھنا ہوتا ہے نا۔ آپ عموماً ہفتے کو پڑھتے ہیں لیکن ہم جمعے کو لکھ مارتے ہیں۔

شروع میں مائیں بیٹیوں کو پالتی ہیں۔ پھر وہ ان کی سہیلیاں بن جاتی ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

خیر امی کو فون کیا لیکن آج بات ہی نہیں ہو پائی۔ بس کھانسے جا رہی تھیں۔ کیا بات ہوتی؟ یہ احساس تو تھا کہ وہ ساتھ ہیں لیکن ان کی کھانسی دل پر گونج رہی تھی۔
ہم جھٹ ان کی ماں بن گئے اور ڈاکٹر کے پاس نہ جانے کا گلہ کرنے لگے لیکن یہ بات بھی ہم ہی جانتے تھے کہ اس سب میں امی کا کیا قصور تھا۔ ان کو شروع سے الرجی کا مسئلہ درپیش ہے۔ آج کل لاہور کی فضا میں ہوا نہیں 'سموگ ' ہے جس سے لوگوں کی صحت کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔
ہم نے بیچارگی کے عالم میں فون رکھ دیا۔ کیا کہتے؟ جو نہ امی کے بس میں تھا نہ ہمارے، اس پر کیا کلیجہ جلاتے۔
دیکھیے، ہم کوئی سائنس دان تو ہیں نہیں جو اس کے اسباب پر ایک مقالہ لکھ دیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ صرف ظاہری نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ہم صحیح کہہ رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب شہروں میں ہر کوئی ٹوٹی سے پانی پیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ پانی شفا کے بجائے بیماری بننے لگا۔ ملک کے کچھ حصوں میں تو پانی میسر ہی نہ تھا۔ اس لیے اس بات کو غنیمت جانا گیا کی چلو پانی تو ہے نا۔ اس پر کفران نعمت کیا کرنا۔ لوگوں نے پانی ابال کر پینا شروع کر دیا۔ ہم پانی سے گئے۔ بنیادی ضرورت تھا لیکن ہم سب کو نصیب نہ ہوا۔ 

لاہور میں آج کل سموگ کا راج ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

چلیے پانی تو ابال لیا، ہوا کا کیا کیجیے؟ ہر روز ایک نئی رپورٹ آتی ہے۔ نئے اعداد آتے ہیں جو دل یوں دہلا دیتے ہیں کہ بس۔ بدھ کو آنے والی رپورٹ کے مطابق لاہور پوری دنیا کا سب سے آلودہ شہر تھا۔
ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق چار سو سے پانچ سو کا مطلب آلودہ فضا ہے۔ ہم نے اسے بھی پچھاڑ کر پیچھے پھینکا اور 721 پر براجمان ہوئے جہاں سے ہمیں ہٹانا ہی ناممکن ہے۔ مانا کہ ہمارے ہاں بہت مسائل ہیں لیکن کیا سانس تک لینے کا حق دھویں میں اڑ جانا معمولی مسئلہ ہے؟
حکومت پنجاب کی طرف سے ایک فرمان آتا ہے جس میں سکولوں میں چھٹیوں کا اعلان فرما دیا جاتا ہے لیکن اس مسئلے کے سدباب کے بارے میں کیا کہیے گا؟ کیا ہر کمزوری کا ملبہ اور فضلہ گذشتہ حکومتوں کے ہی کھاتے ڈلے گا۔ اگر ایسا ہے تو حضور کاہے کو سرکاری تنخواہ پر مامور ہیں؟ ہاتھ اٹھا دیجیے کہ ہم سے نہ ہو پائے گا۔
سمجھ نہیں آتی کہ یہ مسئلہ آج کا تو ہے نہیں۔ جی، دن بدن بڑھتا ضرور جا رہا ہے لیکن راتوں رات شروع تو نہیں ہوا۔ وہ لاہور شہر جس کا نیلا آسمان بادشاہی مسجد کے پورٹریٹ کو مزید حسین بنا دیتا تھا آج دھویں کا گہرا سرمئی بادل بن چکا ہے۔

بدھ کو آنے والی رپورٹ کے مطابق لاہور پوری دنیا کا سب سے آلودہ شہر تھا (فوٹو:اے ایف پی)

ایک دوست نے اپنے فیس بک سٹیٹس پر کیا خوب لکھا تھا کہ بچپن میں جب جہنم کے بارے میں پڑھتے تھے تو کہانی لگتی تھی۔ آج جب اپنے ہی شہر کی ہوا میں سانس نہیں لے پا رہے تو لگتا ہے کہ جنت اور جہنم تو اسی دنیا میں ہے۔
انڈیا میں دہلی کے بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ بھی کسی سے کم نہیں۔ یعنی وہ سب شہر جن کا شہر افسانوں میں سنتے تھے، جو علم و تہذیب کا گہوارہ تھے، جہاں کی عام زبان بھی شاعری تھی، جہاں کے چائے خانوں سے سب ادیب اور شعراء خوشبو بکھیرتے نکلتے تھے، جہاں کی ململ کی ساڑھیاں اس قدر مہین تھیں کہ سوئی کے ناکے میں گزر جاتی تھیں، جہاں جائے بغیر کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا تھا، آج وہ سب دھویں کی دبیز سرمئی تہہ تلے دب چکے ہیں۔
ان سب میں اب نہ آسمان نیلا ہے اور نہ ہی لہلہاتے سر سبز کھیت دکھائی دیتے ہیں۔ ہر طرف تاریکی ہے۔ گھٹن ہے۔ دھواں ہے۔
ہم آسٹریلیا میں رہتے ہیں جہاں ہوا میں فضائی آلودگی تو کیا شور کا بھی دور دورہ نہیں ہوتا لیکن یہاں بھی ہر طرف ماحول کو بچانے کی مہمیں چلتی رہتی ہیں۔
ووٹ دیتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس پارٹی کی ماحول اور موسم کے بارے میں کیا پالیسی ہے۔ درخت کاٹنا جرم ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو ذاتی سواری پر فوقیت دی جاتی ہے۔
صبح شام گاڑیاں پانی سے نہیں دھوئی جاتیں۔ کچرا پھینکتے ہوئے بھی ری سائیکلنگ کا سیکشن علیحدہ ہوتا ہے۔ ہر قسم کی آبی اور زمینی حیات کو جینے کا حق ہے۔ ٹوٹی میں صاف پانی آتا ہے۔ بارش ابر رحمت بن کر آتی ہے۔

جب اپنے ہی شہر کی ہوا میں سانس نہیں لے پا رہے تو لگتا ہے کہ جنت اور جہنم تو اسی دنیا میں ہے (فوٹو:اے ایف پی)

پوری دنیا کا خدا ایک ہے۔ وہ کیوں کر کسی ایک علاقے پر زیادہ مہربان ہونے لگا اور کسی کو دھوئیں میں جھونکنے لگا؟ خدا تو وہی ہے بس انسان مختلف ہیں۔ ان کی ترجیحات جدا ہیں۔ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی رکھوالی کرنے والے ہی اس کی رحمت کے حقدار ہیں۔ دنیا میں جہنم جی رہے ہیں تو شاید آنے والی زندگی میں کم آگ جھیلینی پڑے۔ بس دل کو یہی تسلی دی جا سکتی ہے۔
کوئی کیسے ان ملکوں کی حکومتوں کو سمجھانے کہ ہر بات کا حل ایک دوسرے پر الزام دھرنا نہیں ہے؟ ان کو یہ عقل کب آئے گی کہ ہر ایمرجنسی کا حل ڈبل سواری پرپابندی اور چھٹی میں نہیں ہے؟
سموگ انسانوں کو سانس لینے کے حق سے محروم کرنے کا نام ہے۔ رہی سہی کسر یہاں یوں پوری ہو گی۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ حکومتوں کے سر پر کوئی جوں نہیں رینگے گی۔ عوام بھی ماحول کو مزید آلودہ کرتی رہے گی۔ پانی لٹایا جاتا رہے گا۔ درخت کاٹے جاتے رہیں گے۔ 
پتہ نہیں امی سے کل بھی بات ہو پائے گی یا نہیں۔ انہیں کھانسی کی شکایت ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں