Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا اب وفاقی حکومت کے وکلا عدالت کو ڈکٹیٹ کریں گے‘

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کی درخواست پر سماعت اب سنیچر کو ہوگی۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے درخواست کی سماعت جمعے کو عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد دوپہر دو بجے لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت میں شروع ہوئی تو وفاقی حکومت نے تحریری طور پر لاہور ہائی کورٹ کے سماعت کے اختیار کو چیلنج کر دیا۔
اس تحریری اعتراض کے بعد مقدمے کا رخ ای سی ایل سے ہٹ کے درخواست کے اس عدالت میں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کی طرف مڑ گیا۔
لیگی وکلا نے حکومتی جواب پڑھنے کے لیے مہلت مانگی تو سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی ہو گئی۔
ساڑھے تین بجے سماعت کا آغاز دوبارہ ہوا تو وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ نواز شریف کو سزا اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے دی ہے اور سزا معطل بھی اسی ہائی کورٹ نے کی ہے اس لیے یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ نہیں سن سکتی۔
شہباز شریف کے وکلا کے دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ چوہدری شوگر ملز کا کیس لاہور میں چل رہا ہے اور لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے یہ معاملہ باہر نہیں۔
ایک گھنٹے سے زائد دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے ’سٹار وکیل‘ امجد پرویز نے اپنے دلائل میں سابق صدر پرویز مشرف کا حوالہ بھی دے ڈالا کہ ان کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا۔
تاہم عدالت نے اس دلیل کو زیادہ معقول نہ جانا اور ریمارکس دیے کہ انڈر ٹرائل ملزم اور سزا یافتہ فرد میں فرق ہے۔
اب کی بار لیگی وکیل نے معروف ماڈل ایان علی کے کیس کا حوالہ دیا کہ ان کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا۔ اس حوالے کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں سرگوشیاں اور دبی دبی سی ہنسی بھی سنی گئی۔

ہائی کورٹ کو ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے لیکن لیگی وکیل کی استدعا پر سنیچر کو عدالت لگے گی۔ فوٹو: اردو نیوز

امجد پرویز کے دلائل مکمل ہوئے تو ججز اٹھنے لگے اور عدالت میں غیر یقینی کی صورت حال تھی کہ آیا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے یا معاملہ کچھ اور ہے۔
لیگی وکیل کے چہرے پر اضطراب واضح تھا لہذا انہوں نے اپنے ختم کیے ہوئے دلائل ایک بار پھر شروع کر دیے۔ ججز نے ان کے دلائل کی سمری تحمل سے سنی اور اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے۔
کمرہ عدالت میں تاثر یہی تھا کہ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
جیسے ہی فیصلہ محفوظ ہوا، کمرہ عدالت میں موجود رپورٹروں کی باہر کو دوڑیں لگ گئی کہ پہلے کون اس خبر کو اپنے ٹی وی چینل تک پہنچاتا ہے۔
خبروں سے فراغت کے بعد رپورٹروں کی قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ کسی کا خیال تھا کہ عدالت نے درخواست خارج کر دینی ہے کیونکہ اگر درخواست قابل سماعت ہوتی تو ججز اسی وقت مختصراً بتا کر کارروائی آگے بڑھاتے۔
ایک دوسرے رپورٹر کا ماننا تھا کہ مسلم لیگ ن کے وکلا نے چوہدری شوگر ملز کا حوالہ دے کر لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ثابت کر دیا ہے۔

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے شہباز شریف نے درخواست دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

صرف رپورٹرز ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ وکلا ونگ کے ارکان کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی کمرہ عدالت کے باہر موجود تھی اور ان کی قیاس آرائیاں بھی عروج پر تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی بھی اس فیصلے کو محفوظ کیے جانے کو اچھا شگون نہیں مان رہا تھا۔
تقریباً پونے چھ بجے ایک بار پھر عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو فیصلہ سنا دیا گیا۔ جس میں عدالت نے وفاقی وکیل کے دلائل رد کر دیے اور ای سی ایل سے نام نکالنے کی مرکزی درخواست پر سماعت کے لیے پیر کا دن مقرر کیا۔
یہ فیصلہ سننا ہی تھا کہ ایک دفعہ پھر سارے رپورٹر کمرہ عدالت سے باہر کی طرف دوڑے لیکن ججز ابھی اپنی نشستوں پر موجود تھے۔
مسلم لیگ ن کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ انتہائی غیر معمولی نوعیت کا ہے جس میں ایک شخص کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، اس لیے سماعت سنیچر کو ہی رکھ لی جائے۔
یاد رہے کہ ہفتہ اتوار لاہور ہائی کورٹ میں چھٹی ہوتی ہے۔

ن لیگ وکلا ونگ کے ارکان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ فوٹو: اردو نیوز

اس درخواست کی وفاقی وکیل نے ایک بار پھر مخالفت کی اور کہا کہ ’اگر اتنی ہی جلدی تھی تو بانڈ جمع کروا دیتے۔‘
جسٹس علی باقر نجفی نے لیگی وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وفاقی وکلا کو منا لیں۔
اس موقعے پر سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا اب وفاقی حکومت کے وکلا عدالت کو ڈکٹیٹ کریں گے کہ کس کیس کی سماعت کب کرنی ہے؟‘
اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت سنیچر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں