دانتوں اور بینائی سے محروم ’شیرو‘ کی درد بھری کہانی میں عدالتی حکم پر ’نیا موڑ‘
دانتوں اور بینائی سے محروم ’شیرو‘ کی درد بھری کہانی میں عدالتی حکم پر ’نیا موڑ‘
پیر 19 مئی 2025 16:29
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
قلندر قبیلہ ماضی میں ریچھوں کو پہاڑوں سے پکڑ کر انہیں کتوں سے لڑانے کی تربیت دیتا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری کے بانسرا گلی وائلڈ لائف پارک میں ان دنوں ایک خاموش مکین موجود ہے۔ عمر رسیدہ، دانتوں اور بینائی سے محروم ’شیرو‘ کسی چڑیا گھر کی رونق نہیں بلکہ اس کی کہانی بہت درد بھری ہے جو انسانوں کے اس کے ساتھ سلوک کو بیان کرتی ہے۔
یہ دراصل پاکستان کا سب سے عمر رسیدہ ریچھ (بھورا ریچھ) ہے، جسے چھ ستمبر 2015 کو ضلع حافظ آباد سے وائلڈ لائف سٹاف نے بازیاب کیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 25 سال تھی۔ بعد ازاں، 2016 میں اسے لاہور چڑیا گھر منتقل کیا گیا۔
جنوری 2024 میں لاہور چڑیا گھر کی تعمیرِ نو کے دوران اسے جلو وائلڈ لائف بریڈنگ فارم بھیجا گیا۔ پھر 8 اپریل 2025 کو اسے مری کے بانسرا گلی وائلڈ لائف پارک منتقل کیا گیا تاکہ اُسے نسبتاً پُرسکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔
تاہم لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے ایک درخواست پر ریچھ کو بلکسر (چکوال) وائلڈ لائف پارک منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اب درخواست گزار نے نئی درخواست میں کہا ہے کہ ریچھ کو بلکسر کے بجائے اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے ریسکیو سینٹر منتقل کیا جائے۔
درخواست گزار کا مؤقف
پاکستان کی پہلی اینیمل لا فرم ’انوائرنمنٹل اینڈ اینیمل رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان‘ کے بانی التمش سعید نے پاکستان کے معمر ترین ریچھ کو محکمہ جنگلی حیات پنجاب کی تحویل سے اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے ریسکیو سینٹر منتقل کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ عدالت نے ان کی درخواست پر نمبر لگا دیا ہے اور امکان ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اس پر سماعت اور فیصلہ ہو جائے گا۔
انہوں نے اپنی درخواست کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ابتدا میں ریچھ کو بلکسر (چکوال) وائلڈ لائف پارک منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی، جسے عدالت نے منظور کر لیا۔‘
’تاہم ماہرین سے مشاورت کے بعد معلوم ہوا کہ چکوال کا درجہ حرارت ریچھ کے لیے موزوں نہیں۔ اس بنا پر نئی پٹیشن دائر کی گئی جس میں ریچھ کو اسلام آباد وائلڈ لائف ریسکیو سینٹر منتقل کرنے کی استدعا کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے عدالت سے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے جو ایسے بوڑھے جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے فیصلہ سازی کر سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’رواں برس اپریل میں ریچھ کی خراب حالت کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس پر وہ خود موقع پر پہنچے اور انتظامیہ کو بہتری کی درخواست کی مگر صورتِ حال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ آ سکی۔ چنانچہ ریچھ کو ہنگامی طور پر لاہور سے مری منتقل کیا گیا، مگر یہ فیصلہ چونکہ فوری نوعیت کا تھا، اس لیے بانسرا گلی پارک میں بھی مکمل سہولیات فراہم نہ کی جا سکیں اور بھالو کو ایک بند جگہ پر رکھا گیا ہے۔‘
اسی پس منظر میں عدالت میں درخواست دائر کی گئی کہ ریچھ کو اسلام آباد کے ریسکیو سینٹر منتقل کیا جائے، جہاں بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق چکوال کا درجہ حرارت ریچھ کے لیے موزوں نہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
مری بانسرا گلی کے وائلد لائف پارک میں ریچھ کو کہاں رکھا گیا ہے؟
اردو نیوز نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ مری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ابرار سے رابطہ کیا۔
انہوں نے راولپنڈی بینچ میں دائر پٹیشن میں پٹیشنر کے موقف کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریچھ اپنی اوسط عمر پوری کر چکا ہے اور ہم نے اُس کی ضرورت کے مطابق تمام سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔‘
’پٹیشنر نے یہ موٌقف اختیار کیا تھا کہ یہ ریچھ اگر محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کے پاس رہتا ہے تو مر جائے گا، جس پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ریچھ اپنی عمر پوری کر کے مرتا نہیں ہے۔‘
محمد ابرار نے کہا کہ ’بانسرا گلی وائلڈ لائف پارک میں اس ریچھ کو مکمل سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور اس کا بھرپور خیال رکھا جا رہا ہے، تاہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ریچھ کے لیے پکا فرش ہے، دو کمروں میں سے ایک کمرے میں ریت ڈال دی گئی ہے اور دوسرے کمرے میں لکڑی کا فرش بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس پر آرام کر سکے۔ اس کے لیے لکڑی کے بلاکس بھی فراہم کیے گئے ہیں، جو چھوٹے بچوں کے لیے بنائے گئے کھلونوں کی طرح ہیں، تاکہ ریچھ ان پر بیٹھ سکے اور کھیل سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ریچھ کو کھلا ماحول نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ نابینا ہے اور اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ گر سکتا ہے یا کہیں جا کر زخمی ہو سکتا ہے، اس لیے اس کے ماحول کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ریچھ کے لیے پانی اور آرام کی جگہ بھی فراہم کی گئی ہے، اور موسم کی مناسبت سے خاص دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ مری کا سرد موسم ریچھ کے لیے سازگار ہے، جہاں اسے برف اور دیگر قدرتی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔‘
ریچھ کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟
محکمہ وائلڈ پنجاب (مری) کے مطابق یہ ریچھ چھ ستمبر 2015 کو حافظ آباد سے ایک قلندر سے بازیاب کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 25 سال تھی۔ قلندر قبیلہ ماضی میں ریچھوں کو پہاڑوں سے پکڑ کر انہیں ظالمانہ کرتبوں جیسے نچوانے اور کتوں سے لڑوانے کی تربیت دیتا تھا۔ یہ عمل نہ صرف جانوروں کے لیے تکلیف دہ تھا بلکہ انسانی تفریح کے نام پر ظلم کی بدترین شکل بھی تھا۔ تاہم محکمہ جنگلی حیات پنجاب کی کارروائیوں کے باعث اب ایسے مظالم قریباً ختم ہو چکے ہیں۔
پنجاب میں وائلڈ لائف کے محکمے نے ریچھ پالنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ فائل فوٹو
چڑیا گھر سے جنگل کے سائے تک
سنہ 2025 تک شیرو لاہور چڑیا گھر کا حصہ رہا، جہاں اس کی صحت بتدریج بگڑتی گئی۔ نظر کی کمزوری، دانتوں کا گرنا اور بڑھاپے کے آثار کے باعث 2021 میں اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مرنے دینے (یوتھنیزیا) کی تجویز بھی زیر غور آئی۔ لیکن ایک نئی امید کی تلاش میں 10 جنوری 2024 کو اسے جلو بریڈنگ فارم لاہور منتقل کر دیا گیا۔ 8 اپریل 2025 کو اسے نسبتاً قدرتی اور پُرسکون ماحول دینے کے لیے مری کے بانسرا گلی وائلڈ لائف پارک منتقل کیا گیا۔
محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کا کہنا ہے کہ ’ریچھ کو اب باقاعدگی سے خوراک دی جاتی ہے جس میں پھل، سبزیاں، شہد، ابلے ہوئے انڈے، چکن اور دیگر نرم غذا شامل ہے۔ مری کے چیڑھ کے جنگلات اور مرطوب موسم کے باعث اس کی صحت میں کچھ بہتری بھی آئی ہے۔‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ مری کے مطابق پارک انتظامیہ نے ریچھ کی تنہائی کو پرامن بنانے کے لیے اس کے پنجرے کو تین اطراف سے پردوں سے ڈھانپ دیا ہے تاکہ اسے انسانی شور شرابے سے بچایا جا سکے۔ اس کی زندگی کی کہانی سے آگاہی کے لیے ایک معلوماتی بورڈ بھی نصب کیا جا رہا ہے تاکہ آنے والے سیاح اس کی دردناک کہانی جان سکیں۔