Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان- انڈیا خواتین پر عدم تشدد کا کنونشن نافذ کریں‘

اقوام متحدہ کی خواتین پر تشدد کے متعلق نمائندہ خصوصی دبراوکا سمونووچ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ان ممالک میں شامل ہیں جو خواتین کے خلاف امتیازی رویے اور جنس کی بنیادوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے کنونشن کے مکمل نفاذ پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں اردو نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہیں ماضی میں بھارت میں خواتین کے خلاف مذہبی بنیادوں پر تشدد کے انفرادی واقعات کی شکایات ملتی رہی ہیں جن پر وہ اپنا رد عمل ظاہر کرتی رہی ہیں اور پاکستان سے آنے والی کسی ایسی شکایت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف مواقع پر میں نے انڈیا کے حوالے سے کیسز پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے مجھے دیکھنا پڑے گا کہ اگر کبھی مجھے کوئی شکایات ملی ہوں۔ لیکن ایسے مخصوص کیسز کی نشاندہی اور یہ طے کرنے کے لیے کہ حکومتوں کو ایسے (مذہبی) تشدد کے خاتمے کے لیے کون سی بین الاقوامی روایات متعین کرنی چاہیے، میکانزم موجود رہے ہیں۔‘
 
ایک اور سوال کے جواب میں دبراوکا سمونووچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ خواتین کے خلاف تشدد اور امتیازی رویے کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے انتہائی موثر معاہدوں کے باوجود کچھ ریاستیں جن میں پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہیں ان کے مکمل نفاز سے انکاری رہی ہیں۔ 
ہمارے پاس بہت مضبوط معاہدے ہیں، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی رویےکےخاتمے کا کنوشن، سیڈو کنونشن۔ بد قسمتی سے کچھ ریاستوں کی ابھی تک ہچکچاہٹ ہے، کچھ ریاستیں جن کا ذکر کیا گیا ہے (پاکستان اورانڈیا) کی اس کنونشن کی مخصوص شقوں پر ہچکچاہٹ ہے، اور وہ اس کنونشن کے تحت اپنی ذمے داریوں پر مکمل طور پرعملدرآمد نہیں کر رہے۔ میں حقیقتاً تجویز کروں گی کہ ان ہچکچاہٹوں کا خاتمہ کیا جائے اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے اس کنونشن پر مکمل طور پر عملدرآمد کیاجائے۔‘
قبل ازیں ایشیا پیسیفک کے منتخب صحافیوں سے بات چیت کے دوران میانمار، بھارت اور پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر خواتین کےخلاف امتیازی رویے اور تشدد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کئی ممالک ایسے مسائل کو روکنے کے لیے اپنے نظام کو بین الااقوامی معیارسے ہم آہنگ نہیں کر سکے اور انہیں اپنے قوانین بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ آن لائن ہراسگی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے (فوٹو: یو این)

دبراوکا سمونووچ نے بتایا کہ کئی ممالک میں خواتین کی مدد کے لیے 24 گھنٹے کام کرنے والی ہیلپ لائن قائم نہیں کی گئی اور انتظامیہ و عدلیہ کی غیر حساسیت کی وجہ سے زیادتیوں کے بہت سے مجرم بری ہو جاتے ہیں۔ ’ریپ کی روک تھام کے لیے عدلیہ اور سرکاری قانونی مشینری کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔‘
اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ آن لائن ہراسگی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے اور تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ پر مرضی کے بغیر تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرنے کے عمل کو باقاعدہ جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’می ٹو‘ مہم کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی پر ہراسگی کا الزام نہ لگایا جائے۔   

اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطٰی کی پناہ گزین خواتین کافی مشکلات کا شکار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 اس موقع پر ایشیا پیسیفک میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خواتین کے ریجنل ڈائریکٹرمحمد نصیری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں خواتین کو دی جانے والی حالیہ آزادیوں کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: