Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ اب 17 دسمبر کو متوقع

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے موجودہ حکومت کی طرف سے نامزد کردہ نئی پراسیکیوشن ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ سترہ دسمبر تک اپنے دلائل جمع کروا دیں اور عدالت سترہ دسمبر کو فیصلہ سنا دے گی۔
جمعرات کو جسٹس سیٹھ وقار احمد کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے کیس کی سماعت کی تو ایڈوکیٹ علی ضیا باجوہ نے بتایا کہ انہیں اور منیر بھٹی کو حکومت کی جانب سے گزشتہ روز ہی پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے اس سال اکتوبر میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور کی پراسیکیوشن ٹیم کو فارغ کر دیا تھا۔  
ضیا علی باجوہ کا کہنا تھا کہ انہیں بدھ کو شام چار بجے نوٹیفکیشن ملا اور وہ لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ سابق پراسیکیوشن ٹیم کے دلائل پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ نئے سرے سے دلائل دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں تین ہزار صفحات پر مشتمل ریکارڈ ملا ہے اس کو پڑھنے کے لیے وقت دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انکی خواہش ہے جلد کیس مکمل ہو تاہم انہوں نے عدالت سے مناسب وقت مانگا۔
بنچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے انہیں کہا کہ یہ خصوصی کیس ہے اور یہ خصوصی عدالت ہے۔  باقی کیسز کو سائیڈ پر رکھ کر یہ مقدمہ لڑیں، عدالت کے ججز ملک کے مختلف حصوں سے آتے ہیں۔
ساتھی جج جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ایک ہفتہ سے زیادہ وقت نہیں دیں گے۔یہ  اتنا بڑا کیس نہیں ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ پراسیکیوشن کے ہاتھوں میں کھلایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تیاری کے لیے چار دن بہت ہیں۔
پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ کا کہنا تھا کہ ہمارے اوپر بہت پریشر ہے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے جواب دیا کہ وکیل اور عدالت پر کیا دباؤ ہو سکتا ہے۔ وکیل کا کام عدالت کی معاونت کرنا ہے۔
علی ضیاء باجوہ  نے عدالت سے کیس کی تیاری کے لیے 15 دن کا وقت مانگا۔  عدالت نے انہیں 17 دسمبر تک دلائل دے دینے کی ہدایت کی ۔ جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ 17 دسمبر کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔  آرڈر میں لکھ دیں گے کہ 17 دسمبر تک اپنے دلائل دے دیں، تب تک کیس ملتوی کر رہے ہیں۔

خصوصی عدالت نے پراسیکیوشن ٹیم کو سترہ دسمبر تک اپنے دلائل جمع کروانے کا کہا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

عدالت میں مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے کہا  انہیں بھی دلائل دینے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ایک فوجداری مقدمہ ہے اور پراسیکیوٹر اپنے دلائل دیتا ہے انہیں بھی سنا جائے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں سننے کی ہدایت کی ہے۔  جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے تابع ہیں، ناراض نہیں ہیں ۔ انہوں نے سلیمان صفدر سے کہا کہ(مشرف کے پیش نہ ہونے پر حق سماعت  سے محرومی) کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیں اور اسے عزت دیں یا پھر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کریں۔
جسٹس وقار نے ان سے سوال کیا کہ کس حیثیت میں اپ کو سن لیں کیا آپ پرویز مشرف کی طرف سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟
جسٹس سیٹھ وقار نے انہیں کہا کہ پراسیکیوشن کو دلائل آئندہ سماعت پر دینے دیں اس کے بعد آپ کو بھی سننا ہوا تو سن لیں گے۔ آپ بے شک متفرق درخواست دے دیں۔
عدالت کی کاروائی کے بعد صحافیوں نے نئی پراسیکیوشن ٹیم سے پوچھا کہ کیا وہ 21 دسمبر کا انتظار کر رہے ہیں جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ریٹائر ہو جائیں گے تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کی۔

پرویز مشرف کے وکیل کا مؤقف ہے کہ سابق صدر بیماری کے باعث بیان رکارڈ نہیں کروا سکتے۔ فوٹو اے ایف پی

یاد رہے کہ چیف جسٹس کھوسہ نے پچھلے ماہ سپریم کورٹ میں ایک تقر یب سے خطاب کرتے ہوئے خاص طور پر ہاتھ اوپر اٹھا کر مشرف کیس کا فیصلہ جلد آنے کا ذکر کیا تھا۔ تاہم فیصلہ کی مقررہ تاریخ 28 نومبر سے قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومتی درخواست پرخصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔
حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں نئی پراسیکیوشن  ٹیم مقرر کرنے دی جائے اور خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔
پرویز مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل کو سنا نہیں گیا، اس لیے خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نئے پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ  نے کہا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کے حوالے سے ہی دلائل دیں گے۔ تاہم پچھلی پراسیکیوشن ٹیم کے دلائل پر انحصار نہیں کریں گے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف نے آئین سے سنگین غداری کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جج نہیں ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن قانون کے تحت اپنے الزامات تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ سترہ دسمبر کو ہی دلائل مکمل کرنے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کا پچھلے چار پانچ سال کا ریکارڈ ہے جس کا وہ جائزہ لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ دلائل دیں یا نئے ثبوت اکھٹے کرنے ہیں۔

شیئر: