Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیاقت باغ جلسہ، کیا راولپنڈی بھٹو کا شہر ہے؟

بلاول بھٹو کی جلسہ گاہ آمد سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں جوس و خروش آ گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان پیپلز پارٹی کا راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی 12 ویں برسی پر جلسہ منعقد کروانے کا فیصلہ کئی لحاظ سے اہم تھا۔
یہ پہلی برسی تھی جس میں آصف علی زرداری شریک نہیں تھے، اگرچہ بیماری کے باعث انہوں نے اپنا ویڈیو پیغام بھجوایا تھا۔ سندھ سے نکل کر راولپنڈی میں میدان سجانا، نوجوانوں اور طلبا کی بات کرنا اور جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے ملک بھر سے جیالوں کو لانا پیپلزپارٹی کی ایک نئی حکمت عملی بھی ظاہر کرتا ہے کہ اب شاید بلاول بھٹو کو عوام میں جانا ہوگا۔
لیاقت باغ راولپنڈی وہ مقام ہے جہاں ملک کے دو وزرائے اعظم کا قتل ہوا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اسی میدان میں گولی ماری گئی اور سنہ 2007 میں 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو درجنوں کارکنوں سمیت خودکش دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ آج بلاول بھٹو نے اسی میدان میں اپنی والدہ کو یاد کیا ہے۔
راولپنڈی شہر کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پی ٹی آئی سے پہلے یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی بڑی جماعتیں تھیں۔
پیپلزپارٹی نے یہاں کبھی انتخابی کامیابی تو حاصل نہیں کی، لیکن ن لیگ کو ٹف ٹائم ضرور دیا، یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بھی وہ یہاں سے ہمدردی کا ووٹ سمیٹنے میں ناکام رہی۔ سنہ 2013 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کو مزید محدود کردیا۔
لیکن 27 دسمبر کا دن راولپنڈی کیا ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آج دسمبر کی اس خنک شام کو پیپلزپارٹی نے اپنے جیالوں سے گرمانے کی کوشش کی جو اپنے طور پر کامیاب رہی۔  
راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے جلسے کے لیے سکیورٹی کے سخت اتنظامات کیے گئے تھے۔ مری روڈ پر واقع لیاقت باغ کی طرف آنے والے راستے چاندنی چوک سے لے کر مریڑ چوک تک عام ٹریفک کے لیے بند تھے۔
لیاقت باغ کے باہر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے مختلف شہروں سے آنے والے کارکنوں نے استقبالیہ سٹیج سجا رکھے تھے جو آنے والوں کو رہنمائی فراہم کر رہے تھے۔ مری روڈ پر بھی ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر، بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں کی تصاویر والے ہورڈنگ بورڈز اور بینرز لگے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے یہ صرف جلسہ نہیں بلکہ ایک لمبے سفر کی تیاری ہے جس کی منزل ممکنہ طور پر آئندہ انتخابات ہو سکتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر راولپنڈی ضلع اور شمالی پنجاب سے پیپلز پارٹی اپنے کارکن اور حامی جمع کرنے میں بظاہر ناکام رہی۔ فوٹو: اے ایف پی

جلسہ گاہ میں داخلے کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکن بھی داخل ہونے والوں کی تلاشی کا کام کر رہے تھے اور تقریبا پانچ مقامات پر چیکنگ کے بعد جلسہ گاہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
جلسہ گاہ میں اسی مقام پر ایک دیو ہیکل سٹیج کی تعمیر کی گئی تھی جہاں بے نظیر بھٹو نے اپنا آخری جلسہ کیا تھا۔ یہ سٹیج تقریبا 20 فٹ کی بلندی پر تھا اور جلسہ گاہ میں موجود افراد شاید صحیح طرح اپنے رہنماؤں کا دیدار بھی نہیں کر پا رہے تھے، اسی لیے ان کی سہولت کے لیے سٹیج کے پیچھے ایک بڑی سکرین بھی لگائی گئی تھی۔
سٹیج پر پیپلز پارٹی کی تقریبا تمام مرکزی قیادت موجود تھی، اسی لیے وہاں ایک الگ ہجوم کی صورت دکھائی دے رہی تھی، دوسری جانب پیپلز پارٹی راولپنڈی کی ضلعی قیادت کو شکوہ بھی تھا کہ انہیں سٹیج پر جانے نہیں دیا گیا۔
جلسے میں ایک بڑی تعداد میں سندھ اور جنوبی پنجاب سے جیالے شریک تھے، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے بھی قابل ذکر تعداد میں پارٹی ورکرز آئے تھے، لیکن حیرت انگیز طور پر راولپنڈی ضلع اور شمالی پنجاب سے پیپلز پارٹی اپنے کارکن اور حامی جمع کرنے میں بظاہر ناکام رہی۔
لیاقت باغ کے اطراف میں واقع ہوٹل دو روز پہلے سے بُک ہو چکے تھے جہاں دوسرے شہروں سے آنے والے ورکرز اور سپورٹرز کو ٹھہرایا گیا تھا، ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو پہلی بار راولپنڈی آئے تھے۔

جلسے میں پانچ بج کر 20 منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، یہ وہ وقت تھا جب آج سے 12 سال قبل بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز

اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص سے میں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں تو انہوں نے اپنا نام امتیاز کلہوڑو بتاتے ہوئے کہا کہ وہ حیدرآباد سے اپنے بچوں کے ساتھ پہلی بار راولپنڈی آئے ہیں۔ پوچھا کہ کیسا لگا راولپنڈی تو ان کا کہنا تھا کہ ’راولپنڈی بھٹو کا شہر ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری سے کچھ نوجوان بھی وہیں موجود تھے، ایک نوجوان مشتاق احمد نے بتایا کہ وہ باکسنگ سیکھ رہے ہیں اور لیاری اب دوبارہ آباد ہو رہا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا پیپلز پارٹی بھی لیاری میں دوبارہ آباد ہو رہی ہے تو اس کا جواب انہوں نے ایک گہری مسکراہٹ سے دیا۔
جمعے کو راولپنڈی کا موسم شدید سرد تھا، اگرچہ دھوپ تھی لیکن ہوا میں خنکی جلسے میں موجود افراد کو بے چین کر رہی تھی۔ جلسے کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن سے ہو چکا تھا اور پیپلز پارٹی کے مختلف رہنماؤں کی تقاریر جاری تھیں۔ وقفے وقفے سے پیپلزپارٹی کا مشہور گیت ’دل تیز بجا دل‘ پر جیالے جھوم بھی رہے تھے، لیکن شاید انہیں صرف بلاول کی تقریر کا انتظار تھا۔
جلسے میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، قمرالزمان کائرہ، رضا ربانی، راجہ پرویز اشرف اور دیگر رہنماؤں نے بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا لیکن اس سے زیادہ اہم امر یہ تھا وہ بار بار اس بات کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ راولپنڈی میں لیاقت باغ بھرا ہوا ہے اور اس جلسے کو کامیاب جلسے کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔
بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور بلاول بھٹو تقریبا پانچ بجے جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو جیالوں میں ایک بار پھر جوش آگیا لیکن انہیں ابھی مزید انتظار کرنا تھا، اس دوران پانچ بج کر 20 منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، یہ وہ وقت تھا جب آج سے 12 سال قبل بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔

سندھ سے آئے کچھ لوگوں کا یہ شکوہ بھی سنائی دیا کہ مقامی افراد کی شرکت انتہائی محدود تھی۔ فوٹو: اردو نیوز

تقریبا مزید ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بلاول بھٹو سٹیج پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں موجود وزیراعظم عمران خان کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سال 2020 کو الیکشن کا سال قرار دیا۔
بلاول بھٹو اپنی جوشیلی تقریر کر رہے تھے اور جلسہ گاہ میں مکمل سکوت تھا، لیکن پنڈال میں چند لمحوں کے بعد کچھ اور ہی منظر دکھائی دیا۔ سرد موسم کا اثر تھا یا کچھ اور وجہ، پنڈال کے اگلے حصے میں بیٹھی خواتین اور دیگر کئی مرد جلسہ گاہ سے باہر جانا شروع ہو گئے تھے۔
بلاول بھٹو نے اپنا خطاب ختم کیا تو آخر میں فاتحہ خوانی ہوئی اور سبھی جلسہ گاہ سے باہر جانے لگے، باہر آتے ہوئے ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ وہ حیدرآباد سے آئی ہیں تو میں نے کہا ’اتنی سردی میں بھی‘ تو انہوں نے سندھی زبان میں جواب دیا کہ ’بلاول پر سب کچھ قربان ہے۔
لیکن سندھ سے آئے کچھ لوگوں کا یہ شکوہ بھی سنائی دیا کہ راولپنڈی کو انہوں نے لاڑکانہ بنا دیا، لیکن راولپنڈی والوں نے پھر مایوس کیا، کیوںکہ مقامی افراد کی شرکت انتہائی محدود تھی۔

شیئر: