Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کے لیاقت باغ جلسے میں پوشیدہ پیغام کیا ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق پیپلز پارٹی کو پنجاب میں مشکلات کا سامنا ہے فوٹو: اے ایف پی
رواں سال پاکستان پیپلز پارٹی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کا اجتماع لاڑکانہ میں ان کے مزار کے بجائے لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد کر رہی ہے، جہاں 27 دسمبر 2007 کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
روایتی طور پر پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی برسیاں اور جنم دن گڑھی خدابخش میں واقع بھٹو خاندان کے مزار پر مناتی آئی ہے۔ اس سال برسی کے جلسے کے مقام کی تبدیلی کو پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی سمجھا جا رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ پارٹی کے قریبی حلقے بلکہ  تجزیہ کار بھی اس کو پیپلزپارٹی کے پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے قدم جمانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پیپلز پارٹی نے گڑھی خدا بخش سے باہر بے نظیر کی برسی منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی 12 سال بعد راولپنڈی میں جلسہ کرکے مقتدر حلقوں کو واضح پیغام دینا چاہتی ہے۔

 جلسے کا بنیادی مقصد ہے کیا؟

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ بلاول بھٹو اپنی والدہ کی جائے شہادت پر جانا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت نے اس جلسے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔
’ہم وہاں شہیدوں کو یاد کریں گے اور انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔‘

پیپلز پارٹی لیاقت باغ کے جلسے کو بڑا، بھرپور اور کامیاب بنانے کی خواہشمند ہے فائل فوٹو: اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ جب بے نظیر بھٹو نے جلسہ کیا تھا اس وقت بھی ملک میں بحران تھا۔ ’آج بھی ملک کئی طرح کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ عوام سلیکٹڈ حکمرانوں سے تنگ ہیں۔ ہم انھیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ مشکل حالات میں اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ آج بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی سیاسی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا حل دیں گے۔‘
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ راولپنڈی سے ’راولپنڈی‘ یعنی فوج کو پیغام دیے جانے کا ارادہ ہے۔ پاکستان کی فوج ہماری اپنی ہے، ایجنسیاں ہماری اپنی ہیں اور ہم انھیں دنیا میں باوقار اور بہترین اداروں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ان سے صرف ایک ہی اختلاف ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ ہم روزانہ یہ پیغام دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے۔‘
پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان کے مطابق ’لیاقت باغ میں جلسے کا مقصد اپنے سفر کو اسی سٹیج سے شروع کرنا ہے جہاں سے ہمیں روکا گیا تھا۔  ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر کو شہید کیا گیا لیکن ہم پھر راولپنڈی آ رہے ہیں تاکہ بتا سکیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘

جلسے کے میزبان مصطفی نواز کھوکھر ایک کامیاب شو کرنے کے لیے پر امید ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے اجتماع کے بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جلسے کا بنیادی مقصد اس عزم کا اظہار کرنا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی نئی سیاسی زندگی شروع کرنے جا رہی ہے اور پارٹی نے اپنے آپ کو اس جدوجہد کے لیے دوبارہ تیار کر لیا ہے۔‘

کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے وجود کی بحالی میں کامیاب ہوگی؟

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سنہ 2008 سے 2013 تک حکمرانی کرنے کے بعد گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا سیاسی وجود کھو چکی ہے اور بلاول بھٹو زرداری کی تمام تر کوششوں کے باوجود سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی پی پی پی کے امیدوار اپنی ضمانتیں بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

حکومت نے لیاقت باغ میں جلسے کی اجازت نہ دی تو پیپلز پارٹی نے عدالت سے حاصل کر لی فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی میں جلسے کے اعلان کو سیاسی تجزیہ کاروں نے پیپلز پارٹی کی پنجاب میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی ایک  نئی کوشش قرار دیا ہے اور پارٹی کے پنجاب میں صدر قمر زمان کائرہ بھی اس کو انہونی بات نہیں سمجھتے۔
’سیاسی جماعتیں اپنی تنظیم کی بحالی کے اقدامات کرتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں پنجاب میں مشکل کا سامنا ہے۔ یہ جلسہ بھی اس کوشش کا ایک حصہ ہے کہ ہم پنجاب میں اپنا مقام واپس حاصل کر سکیں۔‘
اخونزادہ چٹان اس حوالے سے مؤقف قدرے مختلف ہے۔ ان کے مطابق ’بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ جلسہ کامیابی اور ناکامی کو سامنے رکھ کر نہیں کرنا بلکہ کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں یا نہیں۔‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ اس جلسے سے فوری طور پر پیپلز پارٹی کے لیے کوئی بڑا نتیجہ برآمد ہوتا نہیں دیکھ رہے۔
’پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنے اس رنگ میں نہیں آ سکی جس میں وہ کبھی تھی۔ اب پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی طاقتیں ہیں۔ ان کی موجودگی میں پیپلز پارٹی پنجاب میں کامیاب نہیں ہو سکتی اور اسی وجہ سے وفاق میں حکومت بھی نہیں بنا سکے گی۔ پیپلز پارٹی کو تیسری نہیں کم از کم دوسری طاقت بننا ہوگا جس میں وقت لگے گا۔‘

یہ پہلا موقع ہے کہ پیپلز پارٹی نے گڑھی خدا بخش سے باہر بے نظیر کی برسی منانے کا فیصلہ کیا ہے فوٹو: اے ایف پی

کیا پیپلز پارٹی بڑا جلسہ کر پائے گی؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جلسوں کے ذریعے خود کو عوامی لیڈر کہلوانے کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کو ہی جاتا ہے۔ ان کے بعد بے نظیر بھٹو کے جلسوں میں بڑی تعداد میں عوام شرکت کرتے تھے۔ اس معاملے میں بلاول بھٹو زرداری تمام تر کوششوں کے باوجود موثر ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
 یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی لیاقت باغ کے جلسے کو بڑا، بھرپور اور انتہائی کامیاب بنانے کی خواہشمند ہے۔
حکومت کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باوجود انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے ذریعے جلسے کی اجازت حاصل کی ہے۔

پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے روٹی، کپڑا اور مکان کو اپنے منشور میں شامل کیا فوٹو: اے ایف پی

جلسے کے میزبان اور بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ وہ ایک کامیاب شو کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔
’حکومتی ہتھکنڈوں سے تیاریوں کو دھچکا لگا لیکن اس کے باوجود بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔‘
قمر زمان کائرہ بھی سخت موسم، دھند اور سردی کے باوجود ایک بڑا جلسہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
لیکن تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق یہ معمول کا ’ٹھیک جلسہ‘ ہو گا۔
’جلسہ ٹھیک ہو جائے گا۔ جس طرح آج کل جلسے ہوتے ہیں یہ بھی ویسا ہی جلسہ ہوگا۔‘

شیئر: