Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کی مدت ملازمت: کیس تمام مقدمات پر بھاری

وزیر قانون فروغ نسیم نے آرمی چیف کی وکالت کرنے کے لیے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں عدلیہ اور خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ یوں تو ہر سال اور سارا سال ہی خبروں بلکہ شہ سرخیوں میں رہتی ہے مگر سال 2019 میں تقریباً ہر دوسری بڑی خبر عدالتوں سے ہی نکلی۔
سنہ 2019 کا آغاز ہوا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار پہلے ہی ماہ اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے۔ لگا کہ جوڈیشل ایکٹیوازم میں کمی ہوگی اور ہسپتالوں کو درست کرنے اور ڈیم بنانے کے بجائے عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے پر توجہ دی جائے گی۔
جنوری 2019 میں نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وہ بھی ڈیم بنائیں گے، مگر دائر کی جانے والی غیر ضروری درخواستوں کے خلاف اور مقدمات کے نمٹانے میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر کے خلاف۔
جسٹس کھوسہ نے کہا تھا کہ وہ جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہیوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور فوجداری مقدمات کو جلد ختم کریں گے۔
اگر سنہ 2019 میں پاکستان کی عدلیہ کی کسی بڑی کامیابی کا ذکر کیا جائے گا تو وہ فوجداری مقدمات کی زیر التوا اپیلوں میں خاطر خواہ کمی ہوگی کیونکہ سپریم کورٹ نے رواں سال کے اختتام تک ہزاروں فوجداری کیسز نمٹائے۔
سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کے اپنے 11 ماہ کے عہد میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت سنہ 2019 کا سب سے بڑا مقدمہ قرار پایا۔
 نومبر کے آخری ہفتے میں جب ایک وکیل نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیا تو سپریم کورٹ نے اگلے ہی دن درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔
اگلے دن سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کی جانب سے سادہ کاغذ پر درخواست واپس لینے کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو عوامی اہمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 184(3) کے تحت سننے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم سماعت کے دوسرے دن کے آغاز پر ہی چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے کیس میں سو موٹو نہیں لیا بلکہ درخواست کو ہی سنا جا رہا ہے۔
 

ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کے مطابق ازخود نوٹس کے حوالے سے ایک مستقل پالیسی ہونی چاہیے۔ 

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور اس پر حکومت نے نظرثانی اپیل بھی دائر کر دی لیکن سب سے بڑی خبر جو سال 2019 میں پاکستان کی عدالتوں سے نکلی وہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کا حکم تھا۔
اسلام آباد میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے والی خصوصی عدالت کے اس فیصلے نے فوج اور حکومت کے ترجمانوں کی فوری اور غیر معمولی ردعمل کے اظہار پر مجبور کیا۔
سال 2019 کے اختتام پر سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے فوجداری مقدمات کے انبار کو نمٹا دیا ہے تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ شکوہ کناں ہیں کہ گزرے سال دیوانی مقدمات کو نظر انداز کیا گیا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو چیلنج کرنے والے وکیل ریاض حنیف پہلے دن عدالت سے غائب رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ ’سال 2019 میں وکلا کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش رہا کہ ان کے مقدمات سماعت کے لیے بروقت مقرر ہی نہ ہو سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ بعض مقدمات تو ایسے تھے کہ پورا سال ان کی باری ہی نہ آ سکی۔
سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ گزرے سال کو جوڈیشل ایکٹوازم کا سال نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پورے سال میں کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔ کامران مرتضیٰ کے خیال میں اگلے سال یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل خالد مدثر عباسی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے سوموٹو مقدمات کی وجہ سے عام لوگوں کے مقدمات بہت کم سماعت کے لیے مقرر ہوتے تھے مگر گزرے سال یہ بات حوصلہ افزا رہی کہ عام لوگوں کے مقدمات نمٹائے گئے۔
’سال 2019 میں ماتحت عدلیہ کے حوالے سے بھی اقدامات کیے گئے اور اپنے ہاؤس کو آرڈر میں کرنے کی کوشش ہوئی۔ مجموعی طور پر یہ سال عدلیہ کی بہتری کی جانب سفر کا سال تھا۔‘
ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کے مطابق ازخود نوٹس کے حوالے سے ایک مستقل پالیسی ہونا چاہیے جو کسی چیف جسٹس کے آنے یا جانے سے متاثر نہ ہو۔
’ایک چیف جسٹس آتے ہیں تو ان کی اس حوالے سے الگ پالیسی ہوتی ہے دوسرے آتے ہیں تو وہ عوامی مفاد کے مقدمات سننے یا ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے الگ مؤقف اپناتے ہیں۔ عدالت کے فل کورٹ کو بیٹھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ کس چیز کا ازخود نوٹس لینا ہے اور کس مسئلے پر نہیں۔‘

اٹارنی جنرل اور حکومت کی ترجمان نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر سخت تنقید کی۔ فوٹو: اے ایف پی

مدثر خالد عباسی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت اور پرامید سال تھا جس میں ماڈل کورٹس کا اجرا ہوا اور ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ کی دیگر شہروں میں قائم رجسٹریوں کو آپس میں جوڑا گیا۔
’لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سال 2019 میں عدلیہ نے یہ تاثر دیا ہو کہ وہ اہم آئینی و مفاد عامہ کے معاملات سے لاتعلق ہے، سال کے آخر میں عدلیہ نے عوامی مفاد کے اہم مقدمات سنے۔‘ اعلیٰ عدلیہ کے لیے گزرے سال ایک اہم واقعہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضیٰ فائز عیسی کے خلاف حکومت کی جانب سے دائر کیا جانے والا صدارتی ریفرنس بھی تھا جس کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
سال 2019 میں عدلیہ کے مقدمات نمٹانے کی رفتار اور کارکردگی پر تو معاشرے کے مختلف طبقات مختلف آرا رکھتے ہوں گے مگر لاہور میں وکلا کی جانب سے ہسپتال میں ڈاکٹروں پر حملے کی سوسائٹی کے ہر طبقے نے مذمت کی اور اس واقعے نے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر دباؤ میں اضافہ کیا کہ وہ بار کے نمائندوں کے خلاف بھی ازخود نوٹس لیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں