Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2019 میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کی وجہ ؟

پٹرولیم منسٹری کے سابق سیکریٹری جی اے صابری کے مطابق روپے کی قدر گرنے سے بھی تیل مصنوعات مہنگی ہوئیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چھ مرتبہ اضافہ اور گیارہ مرتبہ کمی کی لیکن سال 2019 میں پٹرول کی قیمت میں 23.02 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل18.42، لائٹ ڈیزل 5.99 اور مٹی کے تیل میں 12.85روپے فی لٹر اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب گیس کی قیمتوں میں ایک سال میں 114 فیصد ہوا اور اس میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔  
وزارت پٹرولیم کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر اضافے کا رجحان رہا۔
اگست 2018 میں عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ یکم ستمبر 2018 کو پٹرول کی قیمت 92 روپے 83 پیسے، ڈیزل 106 روپے 83 پیسے، مٹی کا تیل 83 روپے 50 پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 75 روپے 96 پیسے فی لٹر تھی۔
حکومت کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت تقریبا 16 روپے اضافے کے بعد ایک مرتبہ پھر ساڑھے چار برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ساڑھے چار سال اپریل 2019 میں پٹرول کی قیمت پھر سے تین ہندسوں میں آئی اور سو روپے لٹر سے تجاوز کر گئی۔ حکومت کی جانب سے بار بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے وعدوں کے باوجود اس میں کمی نہیں لائی جا سکی۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں22 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جنوری سے دسمبر 2019 کے دوران پٹرول 23 روپے 02 پیسے فی لٹر تک مہنگا  ہوا۔  پٹرول 90 روپے97 پیسے سے بڑھ کر 113 روپے99 پیسے فی لٹر ہوگیا۔
ہائی سپیڈ ڈیزل 18روپے 42 پیسے فی لٹر مہنگا کیا گیا۔ جس کےبعد اس کی قیمت  106روپے 68 پیسے سےبڑھ کر 125 روپے ایک پیسہ فی لٹرہوگئی۔ لائٹ ڈیزل7 روپے15پیسے فی لٹر مہنگا کیا گیا جو75 روپے 28 پیسےسےبڑھ کر82 روپے43 پیسے فی لٹر ہو گیا۔
 مٹی کا تیل 13 روپے37 پیسے فی لٹر مہنگا کیا گیا۔ جس کی قیمت 82 روپے 98 پیسےسےبڑھ کر 96 روپے 35 پیسے فی لٹر ہوگئی۔

گیس کی قیمتوں میں ایک سال میں 114 فیصد ہوا اور اس میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔  فوٹو: اے ایف پی

جنوری 2019 میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 54 ڈالر فی بیرل تھی جو دسمبر2019 میں 65 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ رواں برس پٹرولیم مصنوعات پرسیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد برقرار رہی۔
ملک میں اس وقت سی این جی کی قیمت بھی بلند ترین سطح پر ہے۔ سندھ میں فی کلو سی این جی 123 روپے میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سی این جی سیکٹر درآمدی ایل این جی پر منتقل ہو چکے ہیں۔ جہاں سی این جی 89 روپے 90 پیسے فی لٹر کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں گیس مہنگی کرکے 150 ارب روپے کا بوچھ عوام پر ڈالا گیا۔ اس سال گیس صارفین سے تاریخ کی سب سے بڑی اووبلنگ کی گئی۔  قدرتی گیس کے شعبے میں پچاس یونٹ کا نیا سلیب متعارف کروایا گیا ماہانہ 100 یونٹ والے گھریلو صارفین کے گیس بل میں 361 روپے کا اضافہ کیا گیا۔
آئل کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کا ایک میکانزم موجود ہے اور اسی کے تحت ہر ماہ قیمتیں بڑھتی یا کم ہوتی ہیں۔ کمپنیوں کے مطابق اس وقت بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ کے قریب رکھی گئی ہے۔

سندھ میں فی کلو سی این جی 123 روپے میں فروخت ہو رہی ہے.  فوٹو: اے ایف پی

آئل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر الیاس فاضل نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کا بڑا حصہ درآمد کیا جاتا ہے اور اس کی ادائیگی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت کے حساب سے کی جاتی ہے۔ مقامی ٹیکس اور چارجز شامل کرنے کے بعد اوگرا قیمت کا تعین کرتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’کئی مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی مارکیٹ کے حساب سے قیمت میں اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن حکومت کی جانب سے عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔‘
ان کے مطابق ’ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یا اضافے کا باعث بنتی ہے۔ 2019 میں یہ اضافے کا باعث ہی بنی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ کرنسی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کے تعین کے فارمولے کا حصہ ہونا چاہیے۔‘

سال 2019 میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چھ مرتبہ اضافہ اور گیارہ مرتبہ کمی کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے سابق سیکریٹری پٹرولیم جی اے صابری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بین الاقوامی مارکیٹ کو سامنے رکھتے ہوئے قیمتوں میں رد وبدل تو کیا جاتا ہے لیکن جب قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو جنرل سیلز ٹیکس، لیوی اور دیگر ٹیکسز بھی اسی حساب سے بڑھ جاتے ہیں۔ جس کا اثرا عوام کی جیبوں پر پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو ٹیکسز کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ پٹرولیم مصنوعات سے ہی ملتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی معمول کی پریکٹس ہے کہ جب عالمی مارکیٹ میں قیمت بڑھتی ہے تو اس کا سارے کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا ہے۔ جب قیمتیں کم ہوتی ہیں تو وہ ریلیف مکمل طور پر عوام کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ 2019 میں روپے کی بے قدری نے بھی عوام تک ریلیف منتقل نہیں ہونے دیا۔ روپیہ اگر مستحکم رہتا تو قیمتوں کی صورت حال مختلف رہتی۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں