Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جنگ بندی ناممکن مگر ہائی پروفائل حملے نہیں کریں گے‘

جنگ بندی کا معاملہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ بندی پر رہبر شوریٰ کے ساتھ مشاورت کا عمل مکمل ہو گیا ہے، اور آئندہ چند دنوں میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔
سہیل شاہین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مکمل جنگ بندی ممکن نہیں ہو گی بلکہ پر تشدد واقعات میں کمی لائی جائے گی۔
گذشتہ چند دنوں سے طالبان کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ طالبان کی رہبر شوریٰ نے افغانستان میں عارضی جنگ بندی کی حمایت کر دی ہے۔
جنگ بندی کا معاملہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔
امن معاہدے پر دستخط کے لیے امریکہ اور افغان حکومت کی شرط ہے کہ طالبان مکمل جنگ بندی کا اعلان کریں۔
مکمل جنگ بندی کے نتیجے میں طالبان کو افغانستان میں حملوں کے ساتھ ساتھ اپنا متوازی نظام حکومت بھی ختم کرنا ہو گا۔ طالبان کے کابل سمیت تمام 34 صوبوں میں شیڈو گورنرز موجود ہیں جو افغان حکومت کے متوازی نظام چلا رہے ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ مکمل جنگ بندی کے بجائے عارضی جنگ بندی کی جائے گی۔
عارضی جنگ بندی کے دوران صرف پر تشدد واقعات میں کمی لائی جائے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پر تشدد واقعات میں کمی کا مطلب دارالحکومت کابل میں حملے نہ کرنا ہے، تو انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہائی پروفائل حملے نہ کرنا ہے۔
ہائی پروفائل سے مراد بگرام فوجی اڈے اور دیگر ایسے مقامات پر حملے نہ کرنا ہے۔

امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات چار ماہ کے تعطل کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

11 دسمبر کو طالبان نے بگرام میں واقع امریکہ کے افغانستان میں سب سے بڑے فوجی اڈے پر بارود سے بھری گاڑی سے  خود کش حملہ کیا تھا، جس میں دو افغان شہری ہلاک اور 73 زخمی ہوئے تھے۔ خود کش حملے کے بعد طالبان فائٹرز اور غیر ملکی فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بارہ گھنٹے جاری رہا تھا۔
اس حملے سے ایک بار پھر طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات خطرے میں پڑ گئے تھے۔ گذشتہ سال ستمبر میں طالبان کے کابل میں حملے کے نتیجے میں ایک امریکی فوجی کے ہلاک ہونے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات معطل کر دیے تھے۔ جو چار ماہ کے تعطل کے بعد دسمبر میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ مکمل جنگ بندی صرف اس صورت میں ہو گی ’جب امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں، امریکی فوجیوں کا انخلا ہو، بین الافغان مذاکرات حتمی شکل اختیار کر جائیں، اور دونوں فریقین ایک دوسرے کے قیدی رہا کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ گراؤنڈ پر موجود طالبان فائٹرز کو جنگ بندی سے اختلاف نہیں ہو گا۔
اگر جنگ بندی پر مانیں گے تو ہم سب مانیں گے ورنہ نہیں۔

11 دسمبر 2019 کو طالبان نے بگرام  میں واقع امریکی فوجی اڈے پر حملے پر خود کش حملہ کیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

افغانستان میں طالبان کے شیڈو گورنرز کے مستقبل پر انہوں نے کہا کہ مکمل جنگ بندی کے بعد شیڈو گورنرز ختم کر دیے جائیں گے، کیونکہ طالبان کی افغان حکومت میں باقاعدہ شمولیت کے بعد شیڈو گورنرز کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین عدم اعتماد کیوں ہے، ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے اور اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنا پڑیں گے، جن میں سے ایک قیدیوں کی رہائی ہے۔
اپنی طرف سے تو ہماری کوشش ہے کہ اعتماد کی فضا قائم ہو۔
سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان اقتدار کی نہیں بلکہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ امن معاہدے کے نتیجے میں بننے والی حکومت میں طالبان کا کتنا حصہ ہو گا، انہوں نے کہا کہ یہ تمام معاملات بین الافغان مذاکرات میں ہی طے ہوں گی، اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طالبان افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔
واشنگٹن کی جانب سے ابھی تک عارضی جنگ بندی سے متعلق کسی قسم کا بیان سامنے نہیں آیا۔

شیئر: