Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے لیے امریکی فوجی تربیتی پروگرام

امریکہ نے ستمبر 2018 میں اس پروگرام کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ نے سنیچر کو پاکستان کے لیے فوجی تربیت کا پروگرام بحال کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے تاہم امریکہ کی جانب سے سلامتی کے دیگر معاون پروگرام پاکستان کے لیے معطل رہیں گے۔
عسکری امور کے ماہرین کے مطابق  امریکہ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیتی پروگرام 1950 میں شروع کیا تھا جس میں مختلف ادوار میں تربیت حاصل کرنے والے فوجی اہلکاراعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔
پاکستان کے لیے امریکہ میں فوجی تربیت کا پروگرام کی کیا اہمیت ہے اور کیا امریکہ کے علاوہ بھی پاکستان جو دیگر ممالک میں فوجی تربیت کے مواقع موجود ہیں؟
اس دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائیرڈ امجد شعیب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فوجی تربیتی پروگرام 1950 میں شروع ہوا جب پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا ۔ ’اس پروگرام کے تحت پاکستان کو اس زمانے میں بڑے پیمانے پر جنگی آلات بھی دیے گئے اور اس کی ٹریننگ دی گئی اور پھر دو طرفہ ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ جب امریکہ نے پاکستان پر مختلف اوقات میں پابندیاں عائد کی تو یہ پروگرام وقتا فوقتا بند بھی ہوتا رہا لیکن مکمل طور پر کبھی معطل نہیں رہا۔ ’2018 میں جب ٹرمپ نے پاکستان کے لیے امداد معطل کی تو پہلی بار فوجی تربیتی پروگرام بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ اور اس پر پینٹاگون نے اس کی مخالفت بھی کی۔‘

’پاکستان نے اس پروگرام کی کبھی درخواست کی ہے اور نہ ہی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

امجد شعیب کے مطابق اس پروگرام میں پاکستان سے زیادہ امریکہ کا مفاد ہے۔ ’پاکستان نے اس پروگرام کی کبھی درخواست کی ہے اور نہ ہی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
یہ دو طرفہ تعلقات پر مبنی ہے۔ پاکستان آرمی کے آفیسر بھی مخلتف تربیتی پروگرام کے لیے امریکہ جاتے ہیں اور امریکہ کے فوجی افسران بھی پاکستان آتے ہیں۔ پاکستان آفسر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ امریکہ کے فوجی افسران کم تعداد میں تربیت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔‘
اس میں بنیادی طور پر امریکہ پچاس سے زیادہ ممالک کے ساتھ فوجی تربیتی پروگرامز کرتا ہے ’جن ممالک کو امداد فراہم نہیں کی جاتی وہ بھی فوجی تعاون کے پروگرام میں شامل ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ اچھے فوجی تعلقات چاہتا ہے۔’اس میں امریکہ کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جب ان کے افسران کسی بھی ملک کے فوجی افسران کے ساتھ ٹریننگ کا حصہ بنتے ہیں تو ذاتی طور پر فوجی افسران کے ساتھ ایک تعلق بن جاتا ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے بتایا کہ بعض کورسز ایسے ہیں جو کہ تین ماہ کے ہیں اور کچھ کورسز پورا سال چلتے رہتے ہیں ’جب ایک سال ایک ادارے میں رہ کر آپ کام کرتے ہیں تو فوج کے درمیان ایک تعلق بن جاتا ہے۔بعد میں ضرورت کے وقت ان تعلقات کا فائدہ ہوتا ہے۔‘

لیفٹینٹ جنرل (ر)طلعت مسعود مطابق اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی

سابق فوجی جنرل کے مطابق امریکہ کو پاکستان کی بار بار ضرورت پڑتی رہی ہے، ’افغان جہاد کے دور میں بھی اور اس کے بعد جب افغانستان پر حملہ کیا گیا تو تب بھی امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ پھر دونوں ممالک کی انٹیلجنس ایجنسیوں کو  بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اس پروگرام کا زیادہ خواہش مند ہے۔‘

کون سے نامور فوجی افسران اس تربیتی پروگرام میں شامل رہے؟

امجد شعیب نے بتایا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے اسی پروگرام کے تحت امریکہ میں کورس کیا، سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، میجر جنرل خورشید عالم سمیت کافی افسران ہیں جنہوں نے اس پروگرام کے تحت ٹریننگ میں حصہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال نے بھی اس پروگرام کے تحت امریکہ میں ٹریننگ حاصل کی تھی۔  
واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو حال ہی میں جاسوسی کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

پروگرام معطل ہونے سے پاکستان فوج کتنا متاثر ہوئی؟

 پاکستان فوج کو ٹریننگ معطل ہونے سے ہونے والے نقصان یا فائدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کو اس کا زیادہ نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ دیگر ممالک میں فوجی تربیت کے مواقع موجود ہیں۔ ’پاکستان میں ہر طرح کی ٹریننگ کی سہولت موجود ہے اور دنیا میں کئی ممالک کےساتھ جن میں جرمنی، ترکی اور فرانس، انگلینڈ کے ساتھ معاہدے ہیں اور وہاں پر افسران ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں۔

پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوگا

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے امریکہ میں پاکستانی فوج کے تربیتی پروگرام کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت پاکستان فوج کے افسران کو جدید جنگی آلات اور نظام سے ہم آہنگ ہونے میں مدد ملتی ہے۔

’ان پروگرامز سے ایک طویل مدتی تعلق قائم ہوتا ہے اور دوسرے ملک کو سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کے پاس دنیا کی جدید جنگی آلات اور ٹریننگ نظام موجود ہے اور اس پروگرام کے تحت  پاکستان فوج کے افسران کو اس نظام اور جنگی آلات سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملتا ہے۔‘
ان پروگرامز کا دور رس نتائج پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ٹریننگ سے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔’ ان پروگرامز کی مدد سے ایک طویل مدتی تعلق قائم ہوتا ہے اور دوسرے ملک کو سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔‘
طلعت مسعود پراُمید ہیں کہ اس پروگرام کی بحالی سے نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، بلکہ آہستہ آہستہ دیگر شعبوں میں امریکہ اپنے بند دروازے دوبارہ کھولے گا۔

شیئر: