Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لندن: نواز شریف کی تصویریں کیا کہتی ہیں؟

لندن جاتے ہوئے نواز شریف کی ایئر ایمبولینس میں تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی
چینی قول ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی افق پر نظر ڈالیں تو قول کی صداقت پر شک نہیں رہتا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی علاج کے لیے ضمانت پر رہائی اور پھر لندن روانگی کے بعد ان کا کوئی بیان تو میڈیا پر سامنے نہیں آیا مگر کچھ تصاویر سامنے آئی ہیں جنہوں نے سیاسی افق پر ہلچل مچا رکھی ہے۔
گذشتہ سال 19 نومبر کو جب نواز شریف اپنے بھائی اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کے ہمراہ قطر کی ایئر ایمبولینس میں لندن روانہ ہوئے تو ایئر پورٹ سے بغیر وہیل چیئر ان کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ جہاز میں سوار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کے اندر کی تصویر سامنے آئی جس میں وہ کف لنکس والی شرٹ میں ملبوس کشادہ صوفے پر علیحدہ سے بیٹھے نظر آ رہے ہیں اور ان کے سامنے پھلوں کی باسکٹ رکھی ہوئی ہے۔

 

ان کی تصویر پر وزیراعظم عمران خان نے چند روز بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کیا جہاز دیکھ کر مریض ٹھیک ہوگیا۔ رپورٹ میں تو کہا گیا تھا کہ مریض کا اتنا برا حال ہے کہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کو لے جانے والے جہاز پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ ’وہ ایسا زبردست جہاز تھا، عام لوگ تو ایسے نہیں جاتے۔‘
تاہم مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال نے ٹوئٹر پر اس کے جواب میں لکھا تھا کہ ’اس شخص کو یہ بھی نہیں معلوم کہ نواز شریف جہاز کی سیڑھیاں نہیں چڑھا تھا بلکہ انہیں ایمبو لفٹ سے جہاز پر پہنچایا گیا تھا۔‘

لندن کے ایک کیفے میں شہباز شریف اور دیگر کے ہمراہ بیٹھے نواز شریف کی تصویر نے پاکستانی سیاست میں ہلچل پید اکی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

لندن میں قیام کے دوران خبریں آتی رہیں کہ نواز شریف متعدد بار تفصیلی معائنے کے لیے ہسپتال گئے ہیں اور ان کے متعدد ٹیسٹس کیے گئے ہیں جن میں زہرخورانی کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ مگر سامنے صرف نواز شریف کی ایوین فیلڈ سے روانگی کے وقت گاڑی میں بیٹھنے یا  ان کے واپس گھر آنے کی ویڈیوز اور تصاویر ہی آئیں۔
 اس دوران پاکستان میں کئی اہم واقعات ہوئے جن میں خصوصی عدالت کی طرف سے سابق فوجی حکمران جنرل مشرف کو سزائے موت دینا، سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اور پھر پارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری اہم تھے مگر ان تمام واقعات پر نواز شریف کا کوئی سیاسی بیان اور تبصرہ سامنے نہ آیا۔ تاہم ان کی جماعت کی طرف سے حیرت انگیز طور پر آرمی ایکٹ کی ترمیم کے حکومتی بل کی مکمل حمایت کے بعد کارکنوں کی تنقید کے جواب میں پارٹی رہنما خواجہ آصف نے یہ ضرور کہا کہ فیصلہ نواز شریف کی ہدایت پر کیا گیا اور اس حوالے سے رازدای رکھنے کے لیے نواز شریف کی زیر صدارت لندن اجلاس میں پارٹی ارکان سے حلف بھی لیا گیا تھا۔

نواز شریف کے صاحبزادے کے مطابق ڈاکٹرز نے سابق وزیراعظم کو واک کرنے کا کہا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

تاہم خود نواز شریف کی طرف سے کوئی سیاسی بیان یا تبصرہ میڈیا کو جاری نہ کیا گیا۔ سامنے آئی تو صرف ایک تصویر جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف خاندان کے افراد کے ساتھ لندن کے ایک پوش ریسٹورنٹ میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اس آخری تصویر نے تو ایک ہنگامہ ہی کھڑا کر دیا ہے اور حکومتی ارکان نوازشریف کی بیماری کے حوالے سے ایک بار پھر سوال اٹھا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹویٹ کیا ’لندن کے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں ہونے والی ملاقات کے مناظر۔۔۔ کھاؤ پیو بیماری کا علاج انتہائی انہماک سے جاری ہے اور سارے مریض بہتر محسوس کر رہے ہیں۔‘

گذشتہ ماہ لندن جانے سے اب تک نواز شریف نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے بعد وزیرصحت پنجاب یاسمین راشد نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دیکھنے میں نواز شریف ٹھیک لگ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو دی جانے والی مہلت 25 دسمبر کو ختم ہو گئی تھی، 25 دسمبر کے بعد ان کی طرف سے حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان سے رابطہ کرکے سابق وزیر اعظم کی میڈیکل رپورٹس منگوا لی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کو لے جانے والے جہاز پر بھی تبصرہ کیا تھا۔

تاہم سابق وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا ہے کہ اتوار کو خاندان کے افراد کے کہنے پر نواز شریف ہوا خوری کے لیے اپارٹمنٹ سے باہر آئے ان کی چہل قدمی پر بھی سیاست کی جا رہی ہے جو نہایت افسوسناک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم کی جو رپورٹس جمع کرائی گئی ہیں ان میں بھی ڈاکٹرز نے یہ لکھا ہے کہ انہیں مختصر واک کرنی چاہیے۔

شیئر: