Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذاتی میوزیم کے لیے 26 سالہ محنت

نایاب اور نادر اشیا جمع کرنا تو اکثر لوگوں کا مشغلہ ہوتا ہے۔ کوئی ڈاک ٹکٹ جمع کرتا ہے تو کوئی سکے۔ کسی کو کرنسی نوٹ جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی مشاہیر کے خطوط جمع کرنے کا شیدائی ہوتا ہے۔ کسی کو کتب جمع کرنا اچھا لگتا ہے تو کوئی قیمتی پتھر جمع کرنے میں مگن رہتا ہے۔
اس سے ذرا اوپر جائیں تو کوئی تاریخی سامان آرائش کا دلدادہ ہوتا ہے تو کسی کو مورتیاں جمع کرنے کی لگن ہوتی ہے۔ لوگ قیمتی گھڑیاں جمع کرتے ہیں یا پھر پرانی تصاویر،  لیکن کسی ایک شخص کو یہ ساری چیزیں اور نوادرات جمع کرنے کی لگن اور شوق ہو تو وہ اپنی ذات میں ایک میوزیم یعنی عجائب گھر بن جاتا ہے۔
فاروق ریاض ایسی ہی ایک  شخصیت ہیں جن کو تاریخی، ثقافتی اور نایاب اشیا جمع کرنے کا شوق ہے اور اسی شوق میں وہ اتنا کچھ جمع کر چکے ہیں کہ ایک عجائب گھر کے لیے کافی ہیں۔ 26 سال کے طویل سفر، لگن، محنت اور شوق کے باعث انہوں نے تن تنہا میوزیم بنا لیا ہے۔

 

فاروق ریاض کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے کیلی گرافر ہیں لیکن انہیں تاریخ  اور ثقافت سے گہری دلچسپی ہے بلکہ یوں کہیے کہ محبت ہے۔
پہلے پہل تو وہ قیمتی اشیا جمع کرتے اور انہیں اپنے پاس سنبھال کر رکھتے تھے۔ پانچ سال قبل انہوں نے اپنے گھر کے ایک حصہ میں ہی ایک چھوٹا سا عجائب گھر قائم کیا۔
بھمبر روڈ گجرات پر واقعہ ’فاروق ریاض میوزیم‘ میں تاریخی تالے، گھڑیال، ٹائم پیس، تلواریں، آلات موسیقی، لیمپ، برتن، سکے، کرنسی نوٹ، پوسٹ کارڈز، ڈاک ٹکٹ، تاریخی دستاویزات اور طرح طرح کی چیزیں موجود ہیں۔
اردو نیوز  سے گفتگو میں فاروق ریاض کا کہنا تھا کہ ’اس میوزیم کے قیام کا بنیادی مقصد گجرات بالخصوص پاکستان کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنا کر اگلی نسلوں کو منتقل کرنا ہے۔

 فاروق ریاض کے مطابق میوزیم کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنا کر اگلی نسلوں کو منتقل کرنا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کون کون سی نوادرات کتنی بڑی تعداد میں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت میرے پاس فرنیچر کی ایک پوری تھیم موجود ہے۔ پانچ سو کے قریب تالے ہیں۔ ان میں مغل اور سکھ ادوار کے علاوہ گجرات شہر، کوٹلی ککرالی اور چیلیانوالہ کے تالے ہیں۔ بینکوں، چرچوں، مندروں اور مساجد کے نایاب تالے بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے علاوہ جرمنی جاپان، فرانس، برطانیہ ، امریکہ اور ملکہ وکٹوریہ کا وہ تالہ جو ضلع کچہری وزیر آباد کولگتا تھا وہ بھی موجود ہے۔
 پرانے ہتھیاروں کے علاوہ بھی ان کے میوزیم میں بندوقیں، تلواریں اور برچھیاں موجود ہیں۔ کیمروں کا بھی ایک ذخیرہ ہے جن میں ویڈیو اور سٹل کیمرہ بھی موجود ہیں۔ جب سے کیمرہ بنا ہے اور وہ جس جس دور سے گزرا ہے وہ سب اس میوزیم میں ہیں۔

فاروق ریاض کے بقول ان کے پاس تین سو سے چار سو سال پہلے کے ہاتھ سے لکھے گئے قرآن پاکے ک کئی نسخے موجود ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

اس عجائب گھر میں تو تین سو سال پہلے ہاتھ سے لکھا گیا قرآن پاک کا نسخہ موجود ہے تاہم فاروق ریاض کے بقول ’ تین سو سے چار سو سال پہلے کے ہاتھ سے لکھے گئے قرآن پاک کے کئی نسخے موجود ہیں جن میں سے سونے کے پانی سے لکھا ہوا قرآن پاک بھی موجود ہیں۔‘
انہیں تاریخی دستاویزات جمع کرنے کا بھی شوق ہے اس وقت بھی ان کے پاس تاریخ گجرات، گجرات گزٹ، برطانوی اور سکھوں کے دور کے پرانے سٹامپ پیپرز اور دستاویزات بھی رکھے ہوئے ہیں۔
فاروق ریاض کا کہنا ہے کہ ’یہ چیزیں میں خریدتا بھی ہوں اور لوگ مجھے تحفتاً بھی دیتے ہیں۔ میں لوگوں سے درخواست بھی کرتا ہوں کہ لوگ مجھے پرانی چیزیں دیں۔ لوگ خود بھی کئی بار یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فلاں چیز محفوظ ہونی چاہیے تو وہ بھی دے دیتے ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں نمائشیں کرتے ہیں تاکہ نئی نسل اپنے ورثے سے جڑی رہے۔

 


فاروق ریاض کے مطابق انہوں نے نہ کبھی کسی چیز کی توقع کی ہے اور نہ ہی کبھی کچھ مانگا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’آج کے دور میں اگر کوئی یہ سب چیزیں خریدنا چاہے تو کم از کم وہ پیسوں سے تو اتنا کچھ نہیں خرید سکتا۔ ’میرے لیے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس پر کتنا پیسہ لگا ہے۔ اس میں پیسوں کے علاوہ میری زندگی کا وقت لگا ہے۔ 25، 26 سال میں نے سفر کیا ہے۔
ان کے مطابق ’ پیسہ آنی جانی چیز ہے شاید مل جائے گا لیکن وہ وقت کبھی نہیں لوٹے گا۔ جب یہ کام شروع کیا تو میرے بال کالے تھے اب سفید ہو گئے ہیں۔ سب سے قیمتی چیز جو میں نے لگائی ہے وہ میرا وقت ہی تھا۔
ان سے پوچھا کہ اتنی طویل جدوجہد کے بعد ان کے کام کو کوئی پذیرائی ملی ہے؟ تو کہنے لگے ’میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ جب کبھی بھی نمائش لگائی لوگوں نے پذایرائی کی۔ تعاون بھی کیا اور چیزیں بھی عطیہ کیں۔ حکومتی سطح پر ایسا کوئی تعاون نہیں ملا۔

’میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے ملک اور میرے شہر کا ورثہ ہیں۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’میں نے نہ کبھی توقع کی ہے اور نہ ہی کبھی کچھ مانگا ہے۔ میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے دیا جلا دیا ہے۔ اپنے وسائل سے اس کی بنیاد رکھ دی ہے، آہستہ آہستہ آگے چلائیں گے۔
ان کے جمع کیے گئے اس خزانے کا محافظ کون بنے گا اور اس سلسلے کو آگے کون چلائے گا؟ اس سوال پر وہ آبدیدہ ہوئے اور رندھی ہوئی آواز میں بولے ’میری تین بیٹیاں ہیں۔ ان کو بھی ان چیزوں سے محبت ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کے باپ کی چیزیں ہیں۔ اگر کوئی مہمان کوئی چیز مانگ لے تو وہ صاف انکار کر دیتی ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس ورثے کو سنبھال لیں گی۔

میوزیم میں کیمروں کا بھی ایک ذخیرہ موجود ہے جن میں ویڈیو اور سٹل کیمرے بھی موجود ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ان کے مطابق ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے ملک اور میرے شہر کا ورثہ ہیں۔ میں نے یہ چیزیں اکٹھا کرنے کے لیے شاید ہی پاکستان کا کوئی شہر چھوڑا ہو۔‘
فاروق ریاض نے کہا کہ ‘میری خواہش ہے کہ حکومت گجرات میں کوئی جگہ دے دے تو میں اپنے طور پر اور اپنے احباب کے تعاون سے میوزیم بنوا دوں گا۔ یہاں جو کچھ پڑا ہے وہ ساتھ آٹھ فیصد ہے۔ میرے پاس اتنی چیزیں ہیں کہ موجودہ گیلری جیسے 25، 30 گیلریاں ہوں تو بھی کم ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: