Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چڑیا اڑی، ہاتھی اڑا، بینگن اڑا

رومن ایمپائر میں غلاموں اور بھوکے شیروں کے مقابلوں پر ہالی وڈ نے ’گلیڈی ایٹر‘ نامی فلم بنائی تھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا
رومن شہنشاہیت نے لگ بھگ ڈھائی ہزار برس پہلے دو دو مہینے کے گلیڈی ایٹرز گیمز منعقد کرنے کا فیصلہ کسی بے وقوفی یا جذباتی پن میں نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ اس کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ رعایا جب بھی سرکار کی بری کارکردگی سے بے چین ہونے لگے تو اس کا دھیان بٹانے کے لیے شہنشاہ  کھیلوں کا اعلان کر دے اور جنتا اپنے شکوے شکایات بھول بھال کر گلیڈی ایٹر سورماؤں اور بھوکے خونی جانوروں کی بھڑنت یا پھر جانوروں کے ہاتھوں غلاموں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھنے کے لیے روم کے کولوسئم کی طرف دوڑ پڑے اور شہنشاہ مردہ باد کی جگہ شہنشاہ کی جے ہو کے نعرے لے لیں اور یوں اقتدار کے مزید دو چار برس سکھ چین سے بیت جائیں۔
یا اقتدار برقرار رکھنے کا دوسرا طریقہ یہ ایجاد کیا گیا کہ کسی ایک بحران کے سبب اگر عوام  میں  بے چینی کی لہر دوڑ  رہی ہے اور آگے چل کر یہ لہر اسٹیبلشمنٹ  کےلیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور یہ بحران حکمران سے سلٹ بھی نہیں پا رہا تو پھر اس بحران سے عوام کا دھیان بٹانے کےلیے ایک اور گمبھیر نیا بحران کھڑا کر دو تاکہ عوام  اپنے روزمرہ  مسائل میں ہی الجھے رہیں اور ان کا دھیان اوپر کی طرف جائے ہی نا۔
یا پھر کبھی تھوڑی بہت مراعاتی خیرات دے کر سماج کے ایک طبقے کو خوش کر دیا تو کبھی دوسرے کو۔ تاکہ  نااہل حکمرانی کے خلاف طبقاتی اتحاد بن ہی نہ پائے اور ایک طبقہ کہ جس کا استحصال بھی ہو رہا ہو مگر وہ اپنے ہی  استحصال سے صرفِ نظر کر کے استحصال کرنے والوں کی نظرِ کرم  سے لٹکا امید و یاس کے درمیان جھولتا رہے۔
یا پھر ساتھ والی ریاست سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دو۔ چھوٹی موٹی جنگ یا جھڑپ  کا ڈرامہ کر کے یا تھوڑے بہت علاقے پر قبضہ کر کے اپنے لیے بھوکی ننگی رعایا سے کچھ دنوں کےلیے اور جے جے کار کروا لو۔
رعایا پھر بھی دھوکے میں نہ آئے اور ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ہم دیکھیں گے‘ گانا بند نہ کرے تو اس سے وہ گیم شروع کر دو جو ہم سب والدین بچوں کا دھیان بٹانے کے لیے  کھیلتے ہیں۔ چڑیا  اڑی، کوا اڑا، ہاتھی اڑا، نہیں نہیں ابا ہاتھی کیسے اڑ سکتا ہے ۔اچھا تو پھر طوطا اڑا، ہاں یہ ٹھیک ہے ابا۔

پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں کروڑ نوکری دینے کا بھی لکھا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ جو مذہب و رنگ و نسل کی بنیاد پر اچانک سے کہیں بھی کسی بھی بھس میں کوئی بھی ہری، گیروی، نیلی پیلی، مسلم یہود و ہنود و نصاری چنگاری پھینک دی یا پھنکوا دی جاتی ہے اور پھر دنگے شروع ہو جاتے ہیں اور اس میں ایک فریق گلیڈی ایٹر اور دوسرا شکار ہونے والا جانور سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ سب جدید دور کے رومن گیمز ہی تو ہیں۔
یہ جو مودی جی دو کروڑ اور عمران خان ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کر بیٹھے ہیں۔ اس سے دھیان بٹانے کا سوائے اس کے اور کیا طریقہ ہے کہ خوف و بے یقینی کا ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ جو جو چاکری پر لگے ہوئے ہیں یا کاروبار کی گدی پر بیٹھے ہیں انہی کی نوکری اور کام کاج  بچ جائے تو وہ اسے کوئی بہت بڑا چمتکار اور احسان جانیں 'دیکھو ہم  نیا روزگار تو نہیں پیدا کر سکے مگر یہ کیا کم ہے کہ تم سے اب تک روزی روٹی نہیں چھینی۔ اسلیے اچھے دنوں اور ماتھے کے آگے لٹکی ترقی  کی تصوراتی گاجر کھانی ہے تو ہمارا ساتھ دو ورنہ حالات آج سے بھی برے ہو سکتے ہیں۔'
اور یہ جو دلی کے الیکشن میں  شاہین باغ  دراصل پاکستان کا حصہ بتایا جاتا رہا ہے اور مودی جی پاکستان کو سات سے دس دن میں خاک چٹانے کا چیلنج  دیتے رہے۔ اور یہ جو عمران خان  ہر دوسرے تیسرے دن کشمیر کو آگے رکھ کے مودی کو للکار رہے ہیں کہ جنگ تم شروع کرو بند ہم اپنی مرضی سے کریں گے۔ یہ سب کیا ہے۔

کالم نگار کے مطابق عوام مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سرکار کھیلوں کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سوائے اس  کے کہ مودی ہوں کہ عمران یا ان کی جگہ کوئی اور، دونوں جگہ عوام کی توجہ صحت ، تعلیم، روزگار، اسلحہ کی دوڑ جیسے حقیقی  مسائیل  سے ہٹانے کےلیے چڑیا اڑی کوا اڑا بینگن اڑا، ارے نہیں نہیں بینگن کیسے اڑ سکتا ہے۔ چلو پھر سے کھیلتے ہیں، تیتر اڑا، کبوتر اڑا، بندر اڑا، نہیں نہیں نہیں بندر کیسے اڑے گا۔ اور یوں کسی نہ کسی طرح یہ پانچ سال بھی گزر جائیں۔ آگے کا آگے دیکھیں گے جب الیکشن سر پے آئیں گے۔
ایسا نہیں کہ عوام کو یہ کھیل سمجھ میں نہیں آتا، خوب سے آتا ہے۔ مگر گلیڈی ایٹرز اور جانوروں کا خونی دنگل دیکھنے کی خواہش اتنی طاقتور ہے کہ دماغ کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے سے وقتی طور پر محروم کر دیتی ہے۔
بس آخری بار گلیڈی ایٹرز کو سر اڑاتے ہوئے دیکھ لوں، بس آخری بار چرس پی لوں۔ اس کے بعد کبھی بھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا خدا قسم، یقین کرو میں ان میں سے کسی رہنما  کو آئندہ نہیں چنوں گا۔ پر کیا کریں کوئی اور ہے بھی تو نہیں۔ چلو اس بار بس آخری بار اسے  ہی چن کے دیکھ لیتے ہیں۔
بتائیے کون قصور وار ہے، رومن گیمز منعقد کرنے والی اسٹیبلشمنٹ یا لالچی امیدوں سے اندھی ہو رہی پرجا؟
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/ویڈیوز/ کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں