Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس کے دباؤ پر ترانہ گانے والا انڈین مسلمان چل بسا

دہلی کے مظاہروں میں 42 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی ہے جس میں پولیس ایک 23 سالہ زخمی نوجوان اور اس کے چار ساتھیوں کو انڈیا کا قومی ترانہ گانے کے لیے کہہ رہی ہے مگر یہ نوجوان اس دوران ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔
انڈیا کے نجی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق ہلاک ہونے والے نوجوان کا نام فیضان ہے اور وہ انڈیا میں حالیہ پرتشدد مظاہروں سے شدید متاثرہ شمال مشرقی دہلی کے علاقے کردام پوری کا رہائشی تھا۔
وائرل ہونے والی یہ ویڈیو متنازع شہریت بل کے حوالے سے دہلی میں چار روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران بنائی گئی تھی۔ ان مظاہروں میں 42 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، ویڈیو میں نظر آنے والا نوجوان فیضان جمعرات کو ہلاک ہوا تھا۔
شمالی مشرقی دہلی کی اس ویڈیو کی تصدیق حقائق چیک کرنے والی ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ نے بھی کی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پانچ نوجوان زخمی حالت میں سڑک پر لیٹے ہوئے ہیں اور پولیس کے مجبور کرنے پر قومی ترانہ گا رہے ہیں۔
دہلی میں ہنگاموں کو قابو کرنے کے لیے بلائی گئی پولیس کا ایک گروپ بھی ویڈیو میں نظر آ رہا ہے۔ ان میں سے دو پولیس اہلکاروں نے اپنی لاٹھیوں کا رخ ان نوجوانوں کے چہروں کی طرف کر رکھا ہے۔ اس دوران ایک مردانہ آواز سنائی دیتی ہے ’اچھی طرح گا۔‘
فیضان کو دہلی کے گرو تیگ ہسپتال میں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ فیضان کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ فیضان اور ویڈیو میں نظر آنے والے دیگر نوجوانوں کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
فیضان کی والدہ نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ’ان کے بیٹے اور دیگر نوجوانوں کو بری طرح مارا پیٹا گیا، فیضان پر لوہے کے راڈ سے تشدد کیا گیا جس سے ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ تشدد سے ان کے سارے جسم پر نیل پڑ گئے۔ پولیس انہیں وہاں سے لے گئی تھی۔‘

پولیس کا کہنا ہے ہنگاموں میں 500 افراد کو گرفتار کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’کسی نے فیضان کو پہچان کر مجھے اطلاع دی جس کے بعد میں فوری طور پر ہسپتال پہنچ گئی۔ جب وہ مجھے ہسپتال میں نہ ملے تو میں جیوتی کالونی کے تھانے پہنچ گئی۔ فیضان تھانے میں تھے، میں نے ان کی تصویر پولیس کو دکھائی تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ یہیں ہیں۔‘
والدہ کے مطابق ’میں نے انہیں کہا کہ میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتی ہوں اور اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں لیکن انہوں نے مجھے ملنے نہیں دیا۔ اس کے بعد میں نے تھانے میں صبح کے ایک بجے تک انتظار کیا۔‘
فیضان کی والدہ نے بتایا کہ وہ اگلی صبح دیگر دو افراد کے ساتھ دوبارہ تھانے گئیں تو پولیس نے انہیں بھی حراست میں لینے کی دھمکی دے دی۔ ’انہوں نے مجھے رات 11 بجے اس وقت بلایا جب وہ مرنے کے قریب تھا۔‘


فیضان کے ایک رشتہ دار کا کہنا تھا کہ ’فیضان مظاہرے میں شریک نہیں تھا۔‘
رہائی کے بعد اہل خانہ فیضان کو مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔
کردام پوری میں کلینک چلانے والے ڈاکٹر خلیق احمد شیروانی نے بتایا کہ ’جب فیضان کو میرے پاس لایا گیا تو ان کی والدہ نے مجھے بتایا کہ ان کے بیٹے پر پولیس نے تشدد کیا ہے اور دو دن حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا ہے۔‘
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’فیضان کی نبض اور بلڈ پریشر کم تھا۔ انہیں علاج کے لیے ہسپتال بھیجنا لازمی تھا کیونکہ ان کے سر اور جسم کے اندرونی حصوں میں چوٹیں آئی تھیں۔ ان کی کمر زخموں کی وجہ سے نیلی پڑ چکی تھی۔‘
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ ’شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران 500 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘

فیضان کی والدہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر تشدد کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کے مطابق یہ افراد شہریت بل کی حمایت یا مخالفت میں ہونے والی جھڑپوں میں شریک تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’اسے دہلی میں چار روز کی ہنگامہ آرائی کے دوران 13 ہزار 200 ہنگامی کالز موصول ہوئیں تاہم تھانوں میں پولیس رکارڈ کو دیکھا جائے تو اس کا ردعمل شدید شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں