Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی: جلائی جانے والی مساجد میں پہلی نماز جمعہ

جمعے کو دہلی کے مضافات میں جلائی گئی ایک مسجد میں 180 مسلمانوں نے نماز ادا کی (فوٹو: اے پی)
انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی محلے میں پرتشدد جھڑپوں کے دوران جلائی جانے والی مساجد میں مسلمانوں نے پہلی بار ہفتہ وار نماز جمعہ ادا کی ہے۔
گذشتہ دنوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان 72 گھنٹوں تک جاری رہنے والی پرتشدد جھڑپوں کے نیتجے میں کم از کم 40 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں چار مساجد کو آگ لگائی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا کہ پانچ روز قبل شروع ہونے والے ان فسادات کو ایک بار دوبارہ ہوا کیسے ملی تاہم ان کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جمعے کو دہلی کے مضافات میں جلائی جانے والی مسجد کی چھت پر تقریباً 180 مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کی۔ نمازیوں میں سے ایک محمد سلیمان نے کہا کہ ’اگر وہ ہماری مسجدوں کو جلائیں گے تو ہم انہیں دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور دعا کریں گے۔ یہ ہمارا مذہبی حق ہے اور کوئی بھی ہمیں اس حق سے روک نہیں سکتا۔‘
انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف گذشتہ کئی ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں مگر ان میں تیزی اتوار کو اس وقت آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کے دو روزہ دورے پر پہنچ رہے تھے۔
اس متنازع قانون کے تحت انڈیا کی شہریت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے صرف ہندو پناہ گزینوں کو دی جائے گی۔ اس قانون کے خلاف نہ صرف سول سوسائٹی بلکہ طلبا بھی کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔

’اگر وہ ہماری مسجدوں کو جلائیں گے تو ہم انہیں دوبارہ تعمیر کر لیں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رہنما کپل مِشرا کو حال ہی میں دہلی اسمبلی کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے اتوار کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دہلی پولیس سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے مظاہرے کو ختم کرایا جائے ورنہ انہیں یہ کام خود کرنا پڑے گا اور یوں لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کام خود ہی کیا۔
ان ہنگاموں میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے پر بندوقوں، تلواروں، لوہے کی سلاخوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کیا جس کے باعث دہلی کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
مسلمان جب جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف جا رہے تھے تو آس پاس پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی مگر اس کے باوجود ایک گلی سے ایک ہندو نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا۔
متعدد مسلمانوں نے اے پی کو بتایا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے خود کو اپنے گھروں کے اندر محسور کر لیا ہے تاکہ وہ کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعہ سے بچ سکیں۔

فسادات کے دوران متعدد مساجد کو آگ لگا دی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف گذشتہ برس دسمبر میں شروع ہونے والے مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے کئی شہروں میں پھیل گئے تھے اور حالیہ جھڑپوں سے قبل مختلف پرتشدد واقعات میں 23 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
چند ہفتے قبل دہلی کے مشہور تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ گوپال نامی ایک ہندو شخص کی فائرنگ سے جامعہ کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے ایک طالب علم زخمی بھی ہوئے تھے۔
پولیس نے اس شخص کو حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد انڈیا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے عینی شاہد کے حوالے سے بتایا تھا کہ گرفتار کیے گئے شخص نے فائرنگ کرنے سے پہلے چلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ لو آزادی۔
اس کے بعد ایک اور شخص نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر ہونے والے مظاہرے کے شرکا پر فائرنگ کی تھی اور نعرہ لگایا تھا کہ ’انڈیا میں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔‘ پولیس نے اس شخص کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔

فسادات میں 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بی جے پی حکومت کے ترجمان رویش کمار نے اس بات کی تردید کی کہ مودی حکومت نے انڈیا میں مذہبی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے اور وہ مسلمانوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ غلط اور گمراہ کن بات ہے، یوں لگتا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے تشدد کو روکنے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی نے لوگوں سے امن اور بھائی چارے کی اپیل کی تھی۔ ہماری درخواست ہے کہ اس نازک وقت پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے نہ کیے جائیں۔

شیئر: