Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی: پرتشدد مظاہروں میں 20 افراد ہلاک

انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں پرتشدد واقعات سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہو چکی ہے جب کہ 189 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دہلی میں گرو تیگ بہادر ہسپتال کے ڈائریکٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ زخمیوں کا علاج جاری ہے جن میں سے 60 کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں۔
انڈین ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجت دووال آج مرکزی کابینہ کے اجلاس میں دہلی کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔
دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ مظاہروں میں زخمی ہونے والے افراد کو ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد دی جائے اور ان کو محفوظ راستہ دیا جائے۔
منگل کو دہلی پولیس نے کہا تھا کہ موجپور، جعفر آباد، چاند باغ اور کاراوال نگر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
تشدد کے زیادہ واقعات شمال مشرقی دہلی کے علاقے گوکولپوری، موجپور اور برہمپوری میں ہوئے۔
بظاہر شہریت کے متنازع قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپ نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے اور یہ شمال مشرقی دہلی کے مختلف حصوں میں پھیل گیا جس میں پتھراؤ کے علاوہ آتشزدگی کے بہت سارے واقعات دیکھے گئے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجروال نے ٹویٹ کیا ہے کہ دہلی میں صورتحال خطرناک ہے۔ پولیس تمام تر کوششوں کے باوجود صورتحال پر قابو پانے اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر داخلہ کو کرفیو کے نفاذ اور فوج بھجوانے کی درخواست کر رہے ہیں۔
گذشتہ روز وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی جس میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور دہلی کے لفٹیننٹ گورنر سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
میٹنگ کے بعد اروند کیجریوال نے کہا کہ ’پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر امن و امان بحال کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائيں گے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ وزیر داخلہ نے وافر تعداد میں سکیورٹی اہلکار فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میٹنگ میں شرکت کرنے والے کانگریس کے رہنما سبھاش چوپڑہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے اشتعال انگیز بیان دینے والے افراد کو ذمہ دار ٹھہرانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس کا شروع سے مؤقف رہا ہے کہ تشدد سے احتجاج کرنے والے کمزور ہو جائیں گے۔

پرتشدد واقعات شمال مشرقی دہلی کے مختلف حصوں میں پھیل گئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

شمال مشرقی دہلی کے رہائشی اور سماجی کارکن اویس سلطان خان اور جنید نے بتایا کہ سیلم پور، مصطفی آباد، بابرپور، جعفرآباد، شاستری پارک، نور الہی، کردمپوری، کبیر نگر، موجپور اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں۔ 'دائیں بازو کے مسلح غنڈے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔'
انھوں نے بتایا کہ 'رات تین بجے برہمپوری کی اکھاڑے والی گلی میں فائرنگ کی آواز سنی گئی اور دکانیں لوٹی گئیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ جب تک کہ وہاں پولیس تعینات نہیں کی جاتی ہے اور کرفیو نافذ نہیں کیا جاتا ہے حالات کو قابو میں کرنا بہت مشکل ہوگا۔
معروف صحافی نیدھی رازدان نے منگل کے روز دوپہر بعد ٹویٹ کیا ہے کہ ان کے دو ساتھیوں اروند گوناشیکھر اور سوربھ کو اس وقت تک پیٹا گیا جب تکہ انھیں یہ نہیں پتہ چلا کہ 'ارے یہ تو ہمارے لوگ ہندو ہیں'۔ انھوں نے لکھا کہ 'یہ انتہائی قابل نفرت ہے۔'
سی این این کی صحافی زیبا وارثی نے لکھا کہ 'یہ سی اے اے کے حامی یا مخالف مظاہرین نہیں ہیں بلکہ یہ فسادی ہیں جو کہ گاڑیوں کو گھروں کو آگ لگا رہے ہیں دکانوں کو لوٹ رہے ہیں اور جو میڈیا والے ان کے جرائم دکھا رہے ہیں ان پر حملہ کر رہے ہیں۔'
دوسری جانب علی گڑھ میں پراسرار خاموشی چھائی ہے۔ اتوار کے واقعات میں ایک درجن سے زیادہ افراد کو ہسپتال میں داخل کرایا گيا ہے۔ پولیس کے ایڈیشنل  ڈی جی نے کہا ہے کہ جس 22 سالہ محمد طارق کو گولی لگی تھی اب اس کی حالت بہتر ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اسے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بھیجا جائے گا۔
سوشل میڈیا صارفین جلانے، تشدد، تصادم اور احتجاج پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ان واقعات سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر بھی شیئر کرتے رہے ہیں۔
انڈین ٹیلی ویژن میزبان ساکشی جوشی نے وائرل ہونے والی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’اگر آپ ایک انڈین ہوتے ہوئے اس تصویر پر درد کے مارے روتے نہیں، متاثر نہیں ہوتے یا خود پر دباؤ محسوس نہیں کرتے تو مجھے کہنے دیں کہ نہ تو آپ انڈین ہیں نہ ہی انسان۔‘

دہلی میں پرتشدد ہنگاموں کے بعد کے سوشل میڈیا ٹرینڈز

اپنی ٹویٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’اگر آپ اس شخص کے مذہب سے قطع نظر اس سے ہمدردی نہیں کرتے تو میں اس کی ذمہ داری آپ کے والدین کی پرورش پر عائد کروں گی۔‘
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کی ہنگاموں پر لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ تصویر میں ایک نوجوان کو ڈنڈوں سے زدوکوب کرتا دکھائی دیا گیا ہے جو اپنے سر کو ہاتھوں میں چھپائے زمین پر گرا ہوا ہے۔ 

دہلی پولیس اور فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹس کی رپورٹس میں بھی تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ بتایا گیا ہے۔ انڈین میڈیا ’اے این آئی‘ نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی فائر بریگیڈ کو چند گھنٹوں میں شمال مشرقی دہلی سے آگ لگنے کی 45 شکایات موصول ہوئیں، فائر بریگیڈ کے تین اہلکار زخمی ہوئے، جب کہ آگ بجھانے کے لیے استعمال ہونے والی ایک گاڑی جلا دی گئی۔

سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیوز میں آگ لگنے اور اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ویوک رنجن اگنی ہوتری نے آگ اور دھوئیں کے مناظر پر مشتمل ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے ملک شام سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نئے انڈیا کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن اپنے ہی ملک میں نیا شام مل گیا۔‘
 دہلی میں ہنگاموں اور پولیس کے تشدد میں ملوث ہونے کا ذمہ دار وزیرداخلہ کو ٹھہراتے ہوئے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جواب میں انڈین حکمراں جماعت بی جے پی کے حامی اروند کجریوال کی پرانی ٹویٹس شیئر کرتے رہے جس میں وہ اس وقت کی وزیراعلیٰ کو جنسی حملے روکنے میں ناکامی کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

کمال گیان نامی ایک ہینڈل نے دہلی پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا ’یہ ہنگامے دو روز قبل شروع ہوئے دہلی پولیس، امیت شاہ اور وزارت داخلہ کیوں احتیاطی اقدامات نہ کر سکے، یا وہ انتظار کر رہے تھے کہ رتن لال قتل ہو جائے۔‘

دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل رتن لال پتھراؤ کے نتیجے میں سر پر لگنے والی چوٹوں سے ہلاک ہو گئے تھے۔ کچھ صارف پولیس اہلکار کی تصاویر شیئر کر کے حکومت بالخصوص وزیرداخلہ امیت شاہ سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹے۔

مبینہ طور پر پولیس اہلکار کے قتل کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ایک نوجوان کی تصویر بھی ٹائم لائنز پر نمایاں رہی۔ انڈیا کی سابق سپر ماڈل اور اداکارہ کوینا مترا نے بھی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’شرمناک ہے، کیا یہ اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں؟ انہوں نے پولیس والا قتل کیا، انڈین کا دارالحکومت جلایا، اب آگے کیا ہو گا۔‘

پرتشدد مناظر رکھنے والے وائرل ویڈیوز میں ایک ایسی ویڈیوز بھی نمایاں رہی جس میں کچھ زخمی سڑک پر گرے ہوئے ہیں۔ جب کہ قریب موجود پولیس اہلکار ان پر تشدد کرتے ہوئے انڈین قومی ترانہ پڑنے کا مطالبہ کرتے سنے جا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دہلی میں متنازعہ شہریت بل کے خلاف پرتشدد احتجاج کی نئی لہر میں اب تک ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک جبکہ 90 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ 

شیئر: