Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فساد روکنے کا خفیہ فارمولا

دسمبر 2019 میں انڈین پارلیمان نے شہریت کا متنازع ترمیمی بل منظور کیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
مذہبی فسادات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ان میں مرجاتے ہیں لیکن زیادہ تر زندہ رہتے ہیں۔ کچھ کی دکانیں یا مکان جلا دیے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر کی زندگی ایسے چلتی رہتی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
کچھ ایسا ہی دلی میں بھی ہوا ہے۔ تقریباً 45 لوگ مارے گئے، کچھ کی لاشیں آسانی سے مل گئیں، کچھ کی نالوں سے نکالی گئیں اور کچھ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ وہ بھی مل ہی جائیں گے، یا تو زندہ کی فہرست میں یا مردہ کی۔
جو مر گئے ہیں ان کے پاس تو اب دوبارہ زندگی کو پٹری پر لانے کا آپشن نہیں ہے۔ کم سے کم اس لحاظ سے تو ان کی مشکل آسان ہوگئی، لیکن جو زندہ ہیں وہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟
جو کرایے کے گھروں میں تھے وہ تو کوچ کر چکے ہیں۔ جو اٹھا سکے پوٹلیوں میں باندھا اور جہاں جاسکتے تھے، چلے گئے۔ وہ تو اپنے پرانے گھروں کو لوٹیں گے نہیں کیونکہ جب آپ نے اپنے ہی پڑوسی کو اپنا گھر جلاتے دیکھا ہو، یا اس کے ہاتھ آپ کے کسی عزیز کے خون سے رنگے ہوں، تو آپ دوبارہ کیوں اس کا چہرہ دیکھنا چاہیں گے۔
جن کے اپنے گھر ہیں ان کی مشکل ذرا مختلف ہے۔ یہ ان میں سے زیادہ تر کی زندگی کا کل سرمایہ ہے، مجبوری میں بیچ کر جائیں گے تو کوڑیوں کے دام اور اگر لوٹ کر آئے تو پھر اسی خوف کا سایہ۔۔۔ ایسے حالات میں کون زندگی گزار سکتا ہے کہ جب  آپ اپنے ہم سایوں پر بھی بھروسہ نہ کر سکتے ہوں؟
دلی کے فسادات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اور اگر ہو بھی تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ اتنا وقت کیسے لگ گیا؟ اور اگلی مرتبہ لاوا کہاں پھٹے گا اور اس کی زد میں آکر کون جھلسے گا؟

دہلی میں ہونے والے حالیہ فسادات میں املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے (فوٹو اے ایف پی)

تو حالات اس نہج تک کیسے پہنچے؟
سیاسی رہنما نفرتیں بکھیرتے رہے، جنھیں کارروائی کرنی چاہیے تھی انہوں نے کارروائی تو کی لیکن ان کے خلاف نہیں جن کے خلاف کرنی چاہیے تھی۔ جو لوگ قومی پرچم اور دستورِ ہند ہاتھ میں اٹھاکر مساوی حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے انہیں غدار بتایا گیا اور جو انہیں سبق سکھانے کی دھمکی دے رہے تھے وہ ہمیشہ کی طرح محب وطن ہی رہے۔
لیکن یہ سب تو آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ فسادات کو کیسے روکا جائے؟ وہ خفیہ فارمولا کیا ہے جو نہ حکومت کو معلوم ہے، نہ پولیس کو، نہ حزب اختلاف کو اورنہ ہی سپریم کورٹ کو۔
اور ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ ایسا کچھ نہیں جس کا جواب سپریم کورٹ کے پاس نہ ہو۔ لیکن پہلے دلی کی حکومت کا ذکر۔ دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے جس کے رہنما اروند کیجریوال نے چند ہفتے قبل ہی بحیثیت وزیرِاعلیٰ اپنی تیسری اننگز شروع کی ہے۔ جب چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی تو وہ مہاتما گاندھی کی سمادھی پر جاکر امن کے لیے دعا کر رہے تھے۔ لیکن فساد نہیں رکا اس لیے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امن قائم کرنے میں آج کل گاندھی جی کا براہ راست کوئی رول نہیں ہے۔
تو انہیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ وہ دلی کے وزیراعلیٰ ہیں، پولیس ان کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن ریاستی اسمبلی کے اپنی پارٹی کے اراکین کو اگر ساتھ لے کر وہ متاثرہ علاقوں کے قریب جاکر صرف کھڑے بھی ہوجاتے اور یہ کہتے کہ جب تک وفاقی حکومت ٹھوس کارروائی نہیں کرتی، ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے، تو پھر ہندو ہوں یا مسلمان، وہ سب کے ہیرو بن جاتے، ہو سکتا ہے کہ کچھ جانیں بھی بچ جاتیں اور کچھ املاک کی تباہی بھی۔

وزیر داخلہ امت شاہ کو پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا!

کانگریس پارٹی کا تو آج کل ذکر کرنا بھی فضول ہے۔ پارٹی کچھ ایسی جگہ ہے جہاں اسے خود اپنی خبر نہیں، جب سے نریندر مودی دوبارہ وزیراعظم بنے ہیں، کانگریس بس یوں ہی بھٹک رہی ہے۔ شکست کے بعد راہُل گاندھی پارٹی صدر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے لیکن پارٹی کو ان سے اتنی محبت ہے کہ انہیں جانے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھائی، ایک نیا لیڈر منتخب کر لو۔ حزب اختلاف کی ضرورت صرف الیکشن میں ہی نہیں ہوتی، اس طرح کے واقعات ہی سیاسی پارٹیوں کا امتحان ہوتے ہیں، اور ووٹر یاد رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن کانگریس آج کل ووٹوں کی سیاست سے اوپر اٹھ چکی ہے۔
سپریم کورٹ کیا کرسکتی تھی؟ اس کا اندازہ آپ چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے لگا سکتے ہیں: ’تشدد روکنے کے لیے عدالت کچھ کرے، اس بات کے لیے عدالت پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔ اور ایسے کیسز میں عدالتوں کے اختیارات کا دائرہ کافی محدود ہے۔۔۔اور فسادات روکنے کی صلاحیت ان کے پاس نہیں ہے۔۔۔!‘
سر، یہ سارا جھگڑا شہریت کے قانون میں ترمیم سے شروع ہوا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اس ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے کیونکہ بہت سے ماہرین کی رائے میں یہ آئین کےمنافی ہے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کیس کو ترجیحی بنیاد پر سنیں گے، اور فیصلہ آنے تک سٹے آرڈر جاری کر دیتے۔ مظاہرین منٹوں میں اپنا بوریا بستر اٹھاکر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ آپ نے بابری مسجد کیس میں فیصلہ سنانے سے پہلے سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے اتر پردیش پولیس کے سربراہ کو طلب کیا تھا، دلی پولیس کے کمشنر کو بھی ذرا ہلکا سے جھٹکا دے دیتے تو حالات منٹوں میں سدھر جاتے۔

امریکہ نے شہریت کے بل کو’غلط سمت میں خطرناک قدم‘ قرار دیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

بچتی ہے وفاقی حکومت جس کے تحت دلی پولیس کام کرتی ہے۔ حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ یہ وہ خفیہ فارمولا ہے جو سب کو معلوم ہے۔ حکومت نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کر سکتی تھی لیکن اس نے کارروائی کا حکم دینے والے ہائی کورٹ کےجج کا ہی تبادلہ کردیا۔
حکومت پولیس کو یاد دلاسکتی تھی کہ امن و امان قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے اور کسی ایک فرقے کے ساتھ مل کر دوسرے کو سبق سکھانا نہ اسے زیب دیتا ہے اور نہ اس کی پیشہ ورانہ ڈیوٹی میں شامل ہے۔ لیکن حکومت نے شاید یہ سوچا ہوگا  کہ پولیس کو اتنا تو معلوم ہی ہوگا۔
پھر تین چار دن کی خونریزی کے بعد ایسا کیا ہوا کہ حالات اچانک قابو میں آگئے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجت ڈوبھال نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، متاثرین سے  کہا کہ میں آپ کو زبان دیتا ہوں کہ اب کچھ نہیں ہوگا، اور پھر کچھ نہیں ہوا۔
اس بات سے کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا انہوں نے پولیس کمشنر کو جاکر بتایا کہ پولیس کا کام فساد روکنا ہے، اسے بڑھاوا دینا یا کھڑے ہوکر تماشا دیکھنا نہیں؟ یا یہ بات پولیس کو پہلے سے معلوم تھی اور وہ وزارت داخلہ کی طرف سے اشارے کا  انتظار کر رہی تھی؟ کون جانے، یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب کبھی نہیں ملتا!

لیکن اگر کوئی سیکھنا چاہے تو آگے کے لیے سبق کیا ہے؟

تو سبق اور خفیہ فارمولا بس اتنا ہے کہ صرف انصاف کیجیے اور انصاف کرتے وقت یہ مت دیکھیے کہ مرنے والا ہندو ہے یا مسلمان۔ 

شیئر: