Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’محکموں کی لڑائی میں اسلام آباد کا بیڑا غرق‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ماربل انڈسٹری لوگوں کو بیمار کر دے گی، پہلے ہی پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ طلب کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، اسلام آباد کے میئر، تحفظ ماحولیات ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس کو مشترکہ روڈ میپ تیار کرکے جمعرات کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
عدالت کو ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف نے بتایا کہ ’عدالتی حکم کے تحت آئی نائن سیکٹر میں چار فیکٹریوں کو کاربن فضا میں چھوڑنے سے روکنے کا پابند بنایا۔ اب فیکٹریاں کاربن کو فروخت کر کے ریونیو کما رہی ہیں۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’چلیں اچھا ہے ان کو بھی بیچنے کو ایک اور چیز مل گئی۔‘

 

ڈی جی تحفظ ماحولیات ایجنسی نے بتایا کہ ’سی ڈی اے اسلام آباد کی زمین کی ملکیت رکھتا ہے وہ صنعتی پلاٹ پر فیکٹری لگانے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن اس کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ نہیں لیتا۔ سنگجانی میں 53 ماربل فیکٹریاں لگ چکی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ماربل انڈسٹری لوگوں کو بیمار کر دے گی۔ پہلے ہی پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے لوگ اپنے ہاتھ گرم کرکے واپس آ جاتے ہیں۔‘
ڈی جی نے بتایا کہ ‘آئی نائن میں انڈسٹری بند اور وہاں پر وئیر ہاؤس بن چکے ہیں۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صنعتی پلاٹس کو دکان بنا دیا ہے۔ پورا پاکستان ہی دکان بن چکا ہے۔ جدھر دیکھیں دکانیں ہی دکانیں نظر آتی ہیں۔ صنعتوں کو چھوڑ کر باہر سے لاکر چیزیں بیچ رہے ہیں۔ صنعت کار بیوپاری بن گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’صنعتیں بند کر دینا ماحولیاتی آلودگی روکنے کا کوئی حل نہیں ہے۔ پاکستان کا کپڑا دنیا بھر میں معروف تھا۔ اب چین سے منگوا رہے ہیں جس کا کوئی معیار نہیں۔ صنعتیں بند کرنے سے پاکستان کا اثاثہ ہنر مند، کاریگر، مزدور، خام مال پیدا کرنے والے افراد سمیت کئی خاندان متاثر ہوئے ہیں۔‘

 سپریم کورٹ کے حکم پر شہری انتظامیہ نے اسلام آباد میں تجاوزات کے خلاف بھی آپریشن کیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

چیف جسٹس واضح کیا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ صنعتیں بند ہوں۔ ایک کی جگہ سو فیکٹری لگائیں لیکن قانون اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری بھی کریں۔ اسلام آباد اس لیے تو نہیں بنا تھا کہ اس کو صنعتی شہر بنا دیا جائے۔‘
عدالت کو سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ ’اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو تبدیل کرنے کے حوالے سے منظوری لی جا رہی ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان تبدیل کرنے کی اجازت دی تو مارگلہ کی پہاڑیاں ایک ہفتے میں غائب ہو جائیں گی۔
وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد میں پانی کا معاملہ میونسپل کارپوریشن(ایم سی آئی) کو چلا گیا ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سی ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن کے حکام سے کہا کہ ’آپ دونوں ادارے آپس میں لڑتے رہیں اسلام آباد کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پر میئر اسلام آباد کا شیڈول دیکھ رہا تھا وہ اسلام آباد کے نہیں لندن کے مئیر لگ رہے تھے کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت وہیں گزرتا ہے۔ سی ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’رات کو ڈرائیور کے ساتھ اسلام آباد کا چکر لگاتا ہوں تو بڑی خوشبو آتی ہے۔ بلیو ایریا سمیت تمام سڑکوں پر آپ کو گند اور کوڑا ملے گا۔ اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈگورننس ہے۔ ایم سی آئی کو ملنے والا سارا پیسہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ ایم سی آئی اور سی ڈی اے ملازمین نظر نہیں آتے۔ لگتا ہے گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ سی ڈی اے کا چپڑاسی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرا دیتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سی ڈی اے سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتا۔ سی ڈی اے کو معلوم نہیں کس چیز سے کھیل رہا ہے۔ عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون اور سی ڈی اے ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔ عدالت ایک حکم پاس کرے تو سی ڈی اے بند اور ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ سی ڈی اے نے آئین کے تحت نہیں چلنا تو قوم کو اس کی ضرورت نہیں۔ سب نے اپنے کام سے سمجھوتہ کر لیا ہے، پورے ملک کا یہی حال ہے۔‘
عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں