Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ: مشرف کی درخواست خارج

لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا، فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی درخواست اعتراض لگا کر خارج کر دی ہے۔ سابق صدر نے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو سابق صدر کو آئین سے غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ یاد رہے کہ 13 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسڑار آفس کی جانب سے سابق صدر کی درخواست پر اعتراض لگایا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا اس لیے ان کی اپیل کی درخواست نہیں سنی جا سکتی۔
 
سابق صدر کی جانب سے سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو شفاف ٹرائل کا موقع نہیں ملا تھا اور خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیر آئینی تھی۔ درخواست میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر سابق صدر کے پاس 30 دن میں اپیل کرنے کا حق موجود ہے۔
ادھر سابق صدر کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات پر اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سنگین غداری کیس ؛ کب کیا ہوا؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 24 جون 2013 کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔
26 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کے لیے خط لکھا۔ خط میں لکھا گیا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم تشکیل دے۔ وزیراعظم کے خط کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی تھی۔
16 نومبر 2013 کو ایف آئی اے نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور پھر 13 دسمبر 2013 کو انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔

سابق صدر نے سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، فوٹو: اے ایف پی

شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا۔
خصوصی عدالت کی تشکیل
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔
خصوصی عدالت نے پہلی بار سابق صدر کو 24 دسمبر 2013 کو طلب کیا تھا۔
31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی۔ اس دوران پرویز مشرف نے جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس کے بعد 18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔ شہادتیں مکمل ہونے پر پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا۔
2 جنوری 2014 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے دل کے عارضے کی وجہ سے عدالت کے بجائے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) راول پنڈی پہنچا دیا گیا۔ عدالت نے طبی بنیادوں پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے۔

نواز شریف نے 2013 میں پرویز مشرف کے خلاف  ٹرائل کا اعلان کیا تھا، فوٹو: اے ایف پی

اے ایف آئی سی نے سات جنوری کو پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے دل کی تین شریانیں بند ہیں اور انہیں دیگر آٹھ بیماریاں لاحق ہیں۔
خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جس نے پرویز مشرف کی حالت کو ’سنگین‘ بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔
خصوصی عدالت نے سات فروری 2014 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔
18 فروری 2014 کو 22 سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے، تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیونکہ دفاع نے موقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔

پرویز مشرف 2014 میں دل کے عارضے کی وجہ سے اے ایف آئی سی میں داخل ہوئے، فائل فوٹو

دلائل کے بعد 21 فروری 2014 کو خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہو گا۔ 30 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں دوبارہ فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
14 مارچ، 2016 کو پرویز مشرف نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ 16 مارچ 2016 کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔
18 مارچ، 2016 کو پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے لیکن وہ ابھی تک واپس نہ لوٹے۔
11 مئی 2016 کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔

غداری کیس میں پرویز مشرف کو 2016 میں مفرور قرار دیا گیا تھا، فوٹو: اے ایف پی

پرویز مشرف کو مسلسل عدم حاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔ 31 مئی 2018 کو وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔
جون 2018 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن گرفتاری کے خدشے کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔
 11 جون 2019 کو سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔ 8 اکتوبر 2019 کو خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا۔
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔

 لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا، فوٹو: سوشل میڈیا

وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔
سنگین غداری کیس میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں، اس دوران چار ججز تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
مشرف کو سزائے موت
17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔
انھیں دو ایک کے فرق سے سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے ہر جرم کے بدلے میں ایک بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے میں جسٹس سیٹھ وقار احمد کے پرویز مشرف کے فوت ہو جانے کی صورت میں ان کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک پر لٹکائے رکھنے کی رائے کی وجہ سے فیصلے کو خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا۔
خصوصی عدالت یہ فیصلہ سنانے کے بعد از خود تحلیل ہو چکی ہے۔
17 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

شیئر: