Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریفرنس: اٹارنی جنرل کی وکالت سے معذرت

پاکستان کے نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے پیش ہونے سے معذرت کر لی ہے۔
پیر کو نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز اور بار کونسل کی آئینی درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ وہ اس مقدمے میں حکومت کی نمائندگی نہیں کریں گے اور اس کے لیے عدالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو اجازت دے۔
خالد جاوید نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے میں وکیل مقرر کرنے اور تیاری کے لیے مہلت دی جائے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے عدالت سے خود وفاق کی نمائندگی کرنے کی اجازت چاہی تاہم عدالت نے ہدایت کی کہ اگلی سماعت تک حکومت وکیل مقرر کرے یا پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل دلائل دیں۔
پیر کو سماعت کے آغاز پر نئے اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’مسٹر اٹارنی جنرل ہم آپ کو اس عدالت میں واپس آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ نے جو کہنا ہے پہلے کہہ لیں اس کے بعد ہم اس کے مطابق بات کر لیں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے کیس میں وفاق کی نمائندگی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ان کے لیے کانفلیکٹ (ٹکراؤ) ہے۔ اس لیے پیش نہیں ہوں گے۔ ’عدالت کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاق کی نمائندگی کرنے کی درخواست دی ہے۔ اس کے ساتھ کیس میں التوا کی بھی درخواست دی ہے۔ اس پر غور کیا جائے۔‘
عدالت نے کہا ہے کہ وکیل تبدیل ہونے کی صورت میں تیاری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اس لیے التوا پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت اگر اجازت دے تو وہ اس کیس میں وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے دلائل دینا چاہیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’یو آر موسٹ ویلکم‘۔

نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ ان کے فروغ نسیم کے خاندان سے دیرینہ تعلقات ہیں (فوٹو:اردو نیوز)

جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ’فروغ نسیم یہ بتائیے گا کہ آپ وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے وزارت کا چارج چھوڑ دیں گے یا پاس ہی رکھیں گے؟‘ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ’میں وزارت کا چارج نہیں چھوڑوں گا۔‘ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ’پھر میں حیران ہوں کہ آپ کو اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔‘ فروغ نسیم نے کہا کہ ’یہ عدالت پر ہے کہ وہ میرے لیے کیا مناسب سمجھتی ہے۔‘
اس کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون دلائل نہیں دیں گے۔ اگلی سماعت سے پہلے حکومت اس کیس کے لیے وکیل مقرر کرے۔ اگر وکیل مقرر نہ ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل خود پیروی کرتے ہوئے دلائل دیں گے۔‘
اس دوران پاکستان بار کونسل کے چئیرمین عابد ساقی نے عدالت سے کہا کہ ’ہم نے عدالت میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے لیکن ابھی تک اس کو نمبر الاٹ نہیں ہوا۔ ہماری درخواست گزشتہ سماعت پر پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں توہین عدالت سے متعلق ہے۔‘
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’گمان گناہ ہے اس سے بچنا چاہیے۔ اگر کچھ ہے تو تو تحریری طور پر لائیں۔ معاملہ گمان کا ہو تو معاف کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ مجھے شرمندگی ہے کہ گزشتہ سماعت پر میری آواز بلند ہوئی۔ میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا لیکن مجھے محسوس نہیں ہوا کہ میری آواز بلند ہوگئی۔‘

عدالت کے باہر فروغ نسیم نے سابق اٹارنی جنرل کے بارے میں اپنے الفاظ پر معذرت بھی کی فوٹو: پی آئی ڈی

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ ’ہماری درخواست ججوں اور ان کے اہل خانہ کی جاسوسی و نگرانی سے متعلق ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق اور پرائیویسی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں لیکن اس عدالت نے توہین عدالت پر ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا ہوا ہے۔ اس کے بعد تو کسی کو بھی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’آپ اپنی آواز تو بلند نہ کریں۔‘ عابد ساقی نے جواب دیا کہ ’یہ ڈی این اے کا مسئلہ ہے کہ آواز بلند ہے۔ اس میں گستاخی کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ آواز دبائی اتنی گئی ہے کہ بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ چیخ رہے ہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کی اگلی سماعت یعنی 30 مارچ کو ہی سنی جائے گی۔
اس دوران اٹارنی جنرل ایک بار پھر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’عدلیہ کی آزادی میری اولین ترجیح ہے۔ اگر کبھی محسوس ہوا کہ اس پر کوئی سمجھوتہ ہو رہا ہے تو آپ مجھے یہاں موجود نہیں پائیں گے۔‘

خالد جاوید نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے میں وکیل مقرر کرنے اور تیاری کے لیے مہلت دی جائے (فائل فوٹو:سوشل میڈیا)

اس سے قبل نئے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کی عمارت میں قائم اپنے دفتر کا چارج سنبھالا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم بھی ان کے ہمراہ تھے۔
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ان کے فروغ نسیم کے خاندان سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اس موقع پر وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ انہوں نے خالد جاوید خان کو اٹارنی جنرل لگانے کی مخالفت نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے حکومت سے اس معاملے پر اختلافات ہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ انہوں نے سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے بارے میں ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں بعض الفاظ استعمال کیے جو نامناسب تھے اور وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔ یاد رہے کہ فروغ نسیم نے کہا تھا کہ انور منصور جھوٹ بول رہے ہیں کہ ان کو حکومت نے ججوں سے متعلق بات کرنے کے لیے کہا تھا۔
واضح رہے کہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے ایسی باتیں کی تھیں جن کو عدالت نے ناقابل اشاعت قرار دے کر ان سے تحریری ثبوت یا معافی مانگنے کا کہا تھا۔
انور منصور خان نے بعد ازاں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور حکومت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انور منصور کی رائے ذاتی تھی جس سے وفاقی حکومت کا تعلق نہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: